مفتی صاحب!
میری اولاد نہیں ہے، شوہر کا انتقال ہو چکا ہے، والدین شوہر سے پہلے ہی وفات پا چکے تھے، والدہ کی ملکیت میں ایک مکان تھا، شوہر کے ورثا میں صرف دو بھائی اور تین بہنیں ہیں، کیا شرعاً میرا حصہ شوہر کی جائیداد میں ایک چوتھائی (¼) ہے،اور باقی میرے شوہر کے بہن بھائیوں میں تقسیم ہوگا؟
لیکن عدالت نے میرے حق میں میرے شوہر کے تمام حصے کا فیصلہ کیا ہے تو اگر عدالت مجھے پورا حصہ دے دیتی ہے تو کیا وہ میرے لیے لینا جائز ہے؟ یا مجھے صرف اپنا شرعی حصہ لینا چاہیے؟ اور اگر عدالت سے زائد حصہ مل بھی جائے تو کیا میں اسے اپنے پاس رکھ سکتی ہوں یا بہن بھائیوں کو دینا لازم ہے اور کیا ان کے حصے کو صدقہ کرنا جائز ہوگا
پوچھی گئی صورت میں میت کی تجہیز و تکفین اور اگر کوئی وصیت کی ہے تو تہائی مال میں وصیت نافذ کرنے کے بعد، بقیہ مال کو چار حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، جس میں سے ایک (چوتھائی)حصہ میت کی بیوی کو دیا جائے گا اور باقی میت کے بہن بھائیوں میں تقسیم کیا جائے گا۔
شریعت کے مطابق کسی مسلمان کے لیے دوسرے مسلمان کا مال اس کی رضامندی کے بغیر لینا جائز نہیں، لہٰذا پوچھی گئی صورت میں اگر عدالت شوہر کی جائیداد میں آپ کو شوہر کا پورا حصہ دے بھی دے تو شرعاً آپ کے لیے صرف اپنا مقررہ حصہ لینا ہی جائز ہے، شوہر کے بہن بھائیوں کا حصہ لینا اور ان کی اجازت کے بغیر اس میں تصرف یا صدقہ کرنا درست نہیں، بلکہ ان کا حق انہیں واپس لوٹانا لازم ہے۔
*القرآن الکریم ( النساء 12:4)*
وَ لَـهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ اِنْ لَّمْ يَكُنْ لَّكُمْ وَلَدٌۚ فَاِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْۚ
*الشامية:(200/6،ط: دارالفكر)*
لا يجوز التصرف في مال غيره بلا اذنه و ولايته
*الفوائد المرضية بشرح الدرة المضية:(43/1،ط:دار ركائز للنشر والتوزيع)*
والثمن فرض زوجة فصاعدا ... مع فرع زوج وارث لو واحدا.
*تسهيل الفرائض:(8/1،ط:دار ابن الجوزي)*
وكذلك بيَّن أن للزوجة حالين:
إحداهما: أن يكون لزوجها الميت أحد من الأولاد الذكور أو الإناث؛ ففرضها الثمن. الثانية: أن لا يكون له أحد من الأولاد؛ ففرضها الربع.
والدین کا اپنی زندگی میں اپنے بچوں کے درمیان ایک کروڑ کی رقم تقسیم کرنے کا طریقہ
یونیکوڈ احکام وراثت 0