السلام علیکم ورحمتہ اللہ تعالیٰ وبرکاتہ مفتی صاحب کیا زید اپنی زندگی میں کہ صحیح سلامت اور تندرست ہو اپنی کل جائیداد کا تین بیٹوں میں سے ایک بیٹے کو مالک بنا سکتا ہے کہ نہیں دو بیٹے کو مکمل محروم کر دے کل کو زید کے فوت ہونے پر باقی دو بیٹے کے لیے میراث میں سے کچھ بھی نہ بچتا ہو تو از شرع رہنمائی فرمائیں
واضح رہے کہ زندگی میں بعض ورثہ کو محروم کرنے یا ان کا حصہ کم کرنے کے لیے بعض اولاد کو دینا اور بعض کو محروم کر دینا یا کسی شرعی عذر کے بغیر کم دینا جائز نہیں، حدیث مبارکہ میں اس کی ممانعت آئی ہے،اگر والد نے ایسا کیا ہےتو وہ گناہ گار ہوگا۔
صحيح البخاری:(رقم الحديث:2586)
عن النعمان بن بشير : «أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاما، فقال: أكل ولدك نحلت مثله، قال: لا،قال:فارجعه.
سنن أبي داود:(رقم الحديث:3544،دار الرسالة العالمية)
«حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد، عن حاجب بن المفضل ابن المهلب، عن أبيه، قال:سمعت النعمان بن بشير يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "اعدلوا بين أبنائكم، اعدلوا بين أبنائكم".
الشامیة:(696/5،ط: سعید)
"وفي الخانية: لا بأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة؛ لأنها عمل القلب، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار، وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني، وعليه الفتوى.
البحر الرائق:(288/7،ط رشیدیہ)
"يكره تفضيل بعض الأولاد على البعض في الهبة حالة الصحة إلا لزيادة فضل له في الدين.
واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب
دارالافتاء جامعہ دارالعلوم حنفیہ،کراچی