احکام وراثت

اولاد کی موجودگی میں پوتے کی وراثت کا حکم

فتوی نمبر :
14
| تاریخ :
0000-00-00
معاملات / ترکات / احکام وراثت

اولاد کی موجودگی میں پوتے کی وراثت کا حکم

السلام علیکم ورحمة الله وبركاته
سوال :کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام اس مسلے کے بارے میں کہ مثلا بكر زنده ہے اور اسکے دو بیٹے ہے خالد اور عمر او خالد کے بھی دو بیٹے ہے او عمر کی بھی دو بیٹے ہے اور عمر وفات ہوگیا اپنے باپ بکر کے حين حیات میں اس صورت میں عمر کے دو بیٹو کے لئے بکر کے میراث میں حصہ ہے یا نہیں جب بکر فوت ہو جائے ؟ جواب دو جزاکم الله خيرا

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

الجواب باسم ملہم الصواب

واضح رہے کہ میت کے ترکہ کا مستحق وہی وارث ہوتا ہے،جو میت کے مرتے وقت زندہ ہو، جو وارث مورث کی زندگی میں ہی مرجائے،وہ خود مستحق ہوتا ہے نہ اُس کی اولاد، لہذا پوچھی گئی صورت میں چونکہ عمر اپنے والد( بکر) کی زندگی میں فوت ہوگیا، اس لیے عمر کے دونوں بیٹے دیگر ورثہ کی موجودگی میں عمر کے ترکہ سے محروم رہیں گے۔

حوالہ جات

دلائل:

صحیح مسلم:(رقم الحدیث:3(1615)،ط: دار طوق النجاۃ)
عن ابن عباس ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: « ‌ألحقوا ‌الفرائض بأهلها، فما تركت الفرائض فلأولى رجل ذكر ».

السراجی:(53-54،ط:البشری)
وھم أربعۃ أصناف جزء المیت ،وأصلہ ،وجزءأبیہ وجزء جدہ.ألأقرب فالأقرب یرجحون بقرب الدرجۃ أعنی أولاھم بالمیراث جزءالمیت أی البنون ثم بنوھم وان سفلو.

تكملة فتح الملهم:(19/2،ط:داراحياء التراث العربي)
أن الحفيد لا يرث مع الابن، لأن الابن عند وجوده أولى رجل ذكر، فيحوز المال، ويحرم الحفيد لكونه أبعد بالنسبة إليه. وهذا ما أجمعت عليه الأمة الإسلامية منذ القرون الأولى، لم يختلف فيه أحد من الفقهاء، حتى ظهرت في بلادنا طائفة مستغربة تحكم رأيها في جميع مسائل الشريعة، فشذت عن الأمة في كثير من المسائل منها هذه المسألة، فقالت : إن الحفيد إنما يحرم من الميراث عند وجود أبيه، لا عند وجود أعمامه، فيرث الحفيد اليتيم، وإن كان معه أبناء الميت الآخرون غير والد ذلك الحفيد ويكون في ذلك قائماً مقام أبيه . واستدلوا على ذلك بقوله تعالى : ﴿ يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ) [سورة النساء، الآية : (۱۱) قالوا : إن لفظ : (الأولاد) يشمل الأحفاد أيضاً، ولذلك يرث الأحفاد بهذه الآية عند عدم الأبناء فينبغي أن يراد بها كل حفيد لا يحجبه أبوه. وإن دليلهم هذا ينبيء عن جهلهم بأصول الفقه. وذلك أن (الولد) يراد به الابن حقيقة، والحفيد مجازاً، وتقرر في أصول الفقه أن الجمع بين الحقيقة والمجاز في وقت واحد لا يجوز، فلا يراد به (الابن) والحفيد) في قوت واحد، وإلا لزم أن يدخل في هذه الكلمات جميع الأحفاد وأحفادهم عند وجود أبناء الصلب، ويشاركوهم في الميراث، وهذا لا تقول به تلك الطائفة أيضاً .

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء دارالعلوم حنفیہ اورنگی ٹاؤن، کراچی

واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ دارالعلوم حنفیہ (نعمان بن ثابت)

فتوی نمبر 14کی تصدیق کریں
4
Related Fatawa متعلقه فتاوی
  • اولاد کی موجودگی میں پوتے کی وراثت کا حکم

    یونیکوڈ   احکام وراثت 0
  • یوہ،بھائی،پھوپھو،خالہ اور ماموں میں تقسیم میراث

    یونیکوڈ   احکام وراثت 0
  • تقسیم میراث

    یونیکوڈ   احکام وراثت 0
  • 7 بیٹوں، ایک بیٹی اور ایک بیوہ میں تقسیم میراث

    یونیکوڈ   احکام وراثت 0
  • بھائیوں کا بہن کو میراث سے محروم کرنا

    یونیکوڈ   احکام وراثت 0
  • والد کا زندگی میں ایک بیٹے کو ساری جائیداد کا مالک بنانا

    یونیکوڈ   احکام وراثت 0
  • مشترکہ مکان و کاروبار کی تقسیم

    یونیکوڈ   احکام وراثت 0
  • بیوہ اور دو بیٹوں میں تقسیم میراث

    یونیکوڈ   احکام وراثت 0
  • والدین کا اپنی اولاد کو زندگی میں حصہ دینے کے بعد میراث میں حصہ ملے گا ؟

    یونیکوڈ   احکام وراثت 0
  • بڑے بیٹے کی ذاتی کمائی میں دوسرے بیٹوں کا حصہ

    یونیکوڈ   احکام وراثت 0
...
Related Topics متعلقه موضوعات