السلام علیکم مفتیان کرام!
ہمارے بھائی کا انتقال ہو گیا ہے، جس کی اولاد نہیں تھی، ایک بچہ کسی نے دیا تھا، اب بھائی کا ایک گھر ہے اور ایک مدرسہ، اب پوچھنا یہ ہے اس گھر یا مدرسہ میں بیوہ کا کوئی حصہ بنتا ہے؟
اگر بنتا ہے تو کتنا ہوگا او ر اس بچے کا بھائی کے جائیداد میں کوئی حصہ ہوگا یا نہیں؟
تنقیح: مدرسے میں میراث سے کیا مراد ہے ؟
جواب تنقیح:
ہمارے بھائی قاری صاحب تھے، ان کو والد صاحب نے گھر دیا اور ایک تین کمروں کا مکان مدرسے کے لیے وقف کر دیا، اب ان کی شادی ہوئے تقریبا 25، 30
سال ہو گئے، ان کی اولاد کوئی نہیں تھی، ان کے سالے نے ان کو ایک بیٹا دیا، وہ بچہ ماشاءاللہ اب جوان ہے، اب بھائی کا انتقال ہو گیا اب معلومات یہ کرنی ہے کہ آیا جو ہماری بیوہ بھابھی ہے، اس کا اس مدرسے یا گھر میں کوئی حصہ بنتا ہے؟
اگر بنتا ہے تو کتنا؟
اور اس بچے کی ولدیت میں برتھ سرٹیفیکیٹ میں بھائی نے اپنا نام لکھوایا ہے۔
اس بچے کا اب ہمارے بھائی کی جائیداد میں حصہ ہوگا؟
واضح رہے کہ جو چیز وقف کر دی جائے، اس میں میراث جاری نہیں ہوتی، وہ ہمیشہ کے لیے وقف رہتی ہے اور اس کو اس کے مصرف میں استعمال کرنا ضروری ہے، لہذا پوچھی گئی صورت میں مدرسہ میں میراث جاری نہیں ہوگی، البتہ ورثا میں سے جو مدرسہ سنبھالنے اور چلانے کی صلاحیت رکھتا ہو، مدرسہ اس کے حوالے کیا جائے گا، البتہ اس کے علاوہ جو مرحوم کی ملکیت میں موجود اشیا تھیں وہ ورثا میں تقسیم کی جائیں گی۔
کسی بچے کو گود لے کر پالنا جائز ہے، لیکن ولدیت میں اپنا نام لکھوانا جائز نہیں اور نہ ہی ایسا کرنے سے وہ میراث کا مستحق ہوگا، تاہم مرحوم کی بیوہ کو میت کے کل ترکہ سے ایک چوتھائی حصہ دیا جائے گا اور باقی تین حصے دیگر ورثا میں تقسیم ہوں گے۔
*القرآن الکریم:(6:12،النساء)*
وَ لَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ اِنْ لَّمْ یَكُنْ لَّكُمْ وَلَدٌۚ.فان کان لکم ولد فلھن الثمن مِمَّا تَرَكْتُمْ من بعد وصیة.
*القرآن الکریم:(الأحزاب:4:33)*
"وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَآءَكُمْ أَبْنَآءَكُمْ ذَٰلِكُمْ قَوْلُكُم بِأَفْوَٰهِكُمْ وَٱللَّهُ يَقُولُ ٱلْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي ٱلسَّبِيلَ ٱدْعُوهُمْ لِأٓبَآئِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ ٱللَّهِۚ فَإِن لَّمْ تَعْلَمُوٓاْ ءَابَآءَهُمْ فَإِخْوَٰنُكُمْ فِي ٱلدِّينِ وَمَوَٰلِيكُمۡۚ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٞ فِيمَآ أَخْطَأۡتُم بِهِۦ وَلَٰكِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمۡۚ وَكَانَ ٱللَّهُ غَفُورٗا رَّحِيمًا"
*مشكاة المصابيح:(990/2، رقم الحديث:3314،ط:المكتب الاسلامي)*
وعن سعد بن أبي وقاص وأبي بكرة قالا: قال رسول الله ﷺ: «من ادعى إلى غير أبيه وهو يعلم أنه غير أبيه فالجنة عليه حرام».
*مرقاة المفاتيح:(2170/5،رقم الحديث :3314،ط: دارالفكر)*
- (وعن سعد بن أبي وقاص وأبي بكرة قالا: قال رسول الله ﷺ: (من ادعى): بتشديد الدال أي انتسب (إلى غير أبيه وهو يعلم): أي: والحال أنه يعلم (أنه غير أبيه فالجنة عليه حرام): أي: إن اعتقد حله، أو قبل أن يعذب بقدر ذنبه، أو محمول على الزجر عنه ; لأنه يؤدي إلى فساد عريض، وفي بعض النسخ: فالجنة حرام عليه، وهو مخالف للأصول المعتمدة. (متفق عليه) .
*المبسوط للسرخسی:( 12/ 44،ط: دار المعرفة)*
قال (ولا یجعل القیم من الأجانب ما وجد من أہل بیت الموقف وولدہ من یصلح لذلک) ؛ لأنہ لو لم یذکر ہذا الشرط کان للقاضی أن ینصب أجنبیا إذا رأی المصلحة فی ذلک ومقصود الواقف أن یکون ذلک فی أہل بیتہ و ولدہ إما لیکون الوقف منسوبا إلیہ ظاہرا، أو؛ لأن ولدہ أشفق علی وقف أبیہ من غیرہ ویذکر ہذا فی الکتاب لیتحرز القاضی عن خلاف شرطہ.
*البحر الرائق:(244/5،ط: دارالکتاب الاسلامی)*
وفی الإسعاف لا یولی إلا أمین قادر بنفسہ أو بنائبہ لأن الولایة مقیدة بشرط النظر ولیس من النظر تولیة الخائن لأنہ یخل بالمقصود وکذا تولیة العاجز لأن المقصود لا یحصل بہ.
والدین کا اپنی زندگی میں اپنے بچوں کے درمیان ایک کروڑ کی رقم تقسیم کرنے کا طریقہ
یونیکوڈ احکام وراثت 0