کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میرے والد کچھ عرصہ پہلے چائنہ سے ائیں اور کچھ کاروبار شروع کیا جس کی نوعیت کچھ اس طرح تھی کہ وہ پاکستان افغانستان کے تاجروں کے لیے کمیشن پر مال خریدتے تھے ساتھ ساتھ والد صاحب ایک کمپنی کے ساتھ متعارف ہوئے جو والد صاحب کو مال کریڈٹ پر دیتی اور اس کے علاوہ کوئٹہ میں کسی اور کو مال نہ دیتی تھی اسی طرح کاروبار کرکے سرمایہ جمع ہوا پھر مجھ کو تعلیم ختم ہونے کے بعد بلایا اور میں بھی والد صاحب کے ساتھ اسی کاروبار میں لگ گیا پھر والد صاحب پاکستان چلے آئے اور مجھے وہاں ذمہ دار بنایا اور وہ سرمایہ چھوڑ دیا جس میں شایدوہ پاکستان سے بھی کچھ لائے ہو بہرحال اس کے بعد میں محنت کرتا رہا اور کافی بچت ہوئی کرونا وبا پھیلنے کے دوران میں نے خوب محنت کی، وبا ختم ہونے کے بعد میں پاکستان گیا اور والد صاحب کی حیات ہی میں اسی رقم سے جائیداد خریدی اور کچھ مقروض ہوا ،مطلب جتنا بھی سرمایہ تھا وہ میں نے جائیداد میں خرچ کیا اور مزید مقروض ہوا اس کے بعد میں نے محنت کی الحمدللہ وہ قرض بھی ختم ہوا اور کچھ جمع پونجی بھی ہو گئی اب سوال یہ ہے کہ میرا بھائی اور میری بہن میرے بھائی نے آج تک کوئی کمائی نہیں کی میں نے اسے کاروبار پر بٹھایا تھا لیکن اس نے اسے بھی ختم کر دیا والدہ بھی حیات ہیں والد صاحب کا انتقال ہو گیا ہے تو اس جائیداد میں جو والد صاحب اور میری کمائی سے خریدا گیا اور اس کے بعد میری ذاتی کمائی بھی ہے اس میں والد صاحب نے کوئی سرمایہ نہیں چھوڑا کیا اس میں میرے بھائی اور بہنوں اور والدہ کا حصہ بنتا ہے؟
واضح رہے کہ کاروبار اسی کا ہوتا ہے جس کے مال سے کاروبار شروع کیا جائے، پوچھی گئی صورت میں چونکہ یہ کاروبار آپ کے والد صاحب نے شروع کیا اور بعد میں آپ نے سنبھال لیا تو یہ کاروبار آپ کے والد کا ہی سمجھا جائے گا، ان کی وفات کے بعد اس کاروبار پر بھی دیگر اموال کی طرح میراث کے احکام لاگو ہوں گے، ان کے تمام شرعی ورثہ کو شرعی اصولوں کے مطابق حصہ ملے گا۔
چونکہ میت کی وفات کے بعد کاروبار کو تقسیم نہیں کیا گیا اس لیے تمام ورثہ اپنے شرعی حصہ کے تناسب سے اس کاروبار میں شریک سمجھے جائیں گے۔ اس لیے میت کی وفات سے اب تک کاروبار کی مالیت میں جو اضافہ ہوا ہے،اس میں سے بھی سب کو ان کے شرعی حصے کے حساب سے حصہ ملے گا۔ اس دوران جو نفع ہوا، اس میں بھی تمام ورثہ کا حصہ سمجھا جائے گا، البتہ چونکہ آپ کاروبار کو باقاعدہ سنبھالتے رہے ہیں، اس لیے آپ کو عرف کے مطابق اپنی خدمات کی اجرت مثل (جو عرفا اس جیسا کام کرنے والے کو دی جاتی ہے) لینے کا حق حاصل ہو گا ۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين: (6/ 42،ط: دارالفکر)*
وفي الأشباه: استعان برجل في السوق ليبيع متاعه فطلب منه أجرا فالعبرة لعادتهم، وكذا لو أدخل رجلا في حانوته ليعمل له.وفي الدرر: دفع غلامه أو ابنه لحائك مدة كذا ليعلمه النسج وشرط عليه كل شهر كذا جاز، ولو لم يشترط فبعد التعليم طلب كل من المعلم والمولى أجرا من الآخر اعتبر عرف البلدة في ذلك العمل.
(قوله فالعبرة لعادتهم) أي لعادة أهل السوق، فإن كانوا يعملون بأجر يجب أجر المثل وإلا فلا. (قوله اعتبر عرف البلدة إلخ) فإن كان العرف يشهد للأستاذ يحكم بأجر مثل تعليم ذلك العمل، وإن شهد للمولى فأجر مثل الغلام على الأستاذ .
*ایضاً :*
في القنية الأب وابنه يكتسبان في صنعة واحدة ولم يكن لهما شيء فالكسب كله للأب إن كان الابن في عياله لكونه معينا له ألا ترى لو غرس شجرة تكون للأب.
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام: علی حیدر (26/3ط: دارالجیل)
تقسم حاصلات الأموال المشتركة في شركة الملك بين أصحابها بنسبة حصصهم، يعني إذا كانت حصص الشريكين متساوية أي مشتركة مناصفة فتقسم بالتساوي وإذا لم تكن متساوية بأن يكون لأحدهما الثلث وللآخر الثلثان فتقسم الحاصلات على هذه النسبة؛ لأن نفقات هذه الأموال هي بنسبة حصصهما، انظر المادة (1308) وحاصلاتها أيضا يجب أن تكون على هذه النسبة؛ لأن الغنم بالغرم بموجب المادة (88) .
الحاصلات: هي اللبن والنتاج والصوف وأثمار الكروم والجنائن وثمن المبيع وبدل الإيجار والربح وما أشبه ذلك.
ایضاً:(51/3)
إذا بذر بعض الورثة الحبوب المشتركة بين جميع الورثة في الأراضي المورثة أو في أراضي الغير بإذن الورثة الآخرين أو إذن وصيهم أو بإذن القاضي إذا كان الورثة صغارا فتكون الحاصلات مشتركة بينهم جميعا، والحال الذي يوجب أن تكون الحاصلات مشتركة بينهم هو كون البذر مشتركا بينهم وكون الوارث الزارع قد زرع بإذن أصحاب الحصص الآخرين سواء زرع في الأراضي الموروثة أو في أراضي الغير أي في الأرض المأجورة أو المستعارة (الفتاوى الجديدة) أو في ملكه الخاص، وفي هذه الصورة يكون الزارع أصيلا عن نفسه ووكيلا عن شركائه في الزراعة.
والدین کا اپنی زندگی میں اپنے بچوں کے درمیان ایک کروڑ کی رقم تقسیم کرنے کا طریقہ
یونیکوڈ احکام وراثت 0