السلام علیکم مفتی صاحب آپ سے یہ سوال ہے کہ چار بہن بھائی ہیں اور میرے والد والدہ کی فار ایکسیڈنٹ میں انتقال ہو گیا تو وراثت میں انہوں نے ایک بلڈنگ تین کوشن میں بنی تھی ایک بیٹے کو اس کی بھی شادی ہوئی ہوئی تھی نیچے والا پورشن دے دیا گراؤنڈ کا بڑے والے بیٹے کو اس کے بعد سیکنڈ والا پورشن ہے فرسٹ پاور ان کے پاس تھا میری والد والدہ اور میری سسٹر ہے وہ انہوں نے اپنے چھوٹے بیٹے کو دے دیا اپنی زندگیوں کو لیکن جب انتقال ہو کہ ٹائم جا رہے تھے وہ انہوں نے گھر کو لاک کر کے میری سسٹر کے ہاتھ میں دی اور سسٹر میری میرے گھر اگئی بچوں کے پاس میں بھی تھی گاڑی میں پھر ایکسیڈنٹ ہوا تو اب جو بھائی ہے اس نے پورے کاروبار میں بھی قبضہ کر لیا جبکہ اس کی دکان لگتی کارخانہ عالم تھا وہ بھی اس نے ہمیں کچھ نہیں دیا اور اب جو گھر میں سے بھی وہ ہمیں حصہ نہیں دے رہا وہ کہہ رہا ہے میں ایک بہن کو دوں گا ایک بہن کو نہیں دوں گا اور جب بیچوں گا تو دے دوں گا ورنہ ہم اس میں رہتے رہیں گے میں ترکہ نہیں دوں گا بس میں اپ سے ہی پوچھنا چاہتی ہوں ہمارا اس میں حصہ ہے یا نہیں اس کا مطلب سب ہو گیا نا نہیں
واضح رہے کہ اگر والد نے اپنی زندگی میں اپنی جائیداد میں سے کوئی چیز اپنی اولاد میں سے کسی کو بطورِ ملکیت دے دی اور اولاد نے اس پر قبضہ بھی کرلیا تو یہ والد کی طرف سے "ہبہ" (یعنی تحفہ) شمار ہوگا۔
شریعت کے مطابق اولاد کو ہبہ دینے میں یہ ضروری ہے کہ سب کو برابر حصہ دیا جائے۔
البتہ اگر والد نے اپنے بیٹوں کو صرف رہائش کے لیے پورشن یا جائیداد دی تھی، نہ کہ ملکیت کے طور پر تو ایسی صورت میں والد کے انتقال کے بعد تمام جائیداد چاروں بہن،بھائیوں کے درمیان شریعت کے مطابق تقسیم کی جائے گی۔
اس تقسیم کے مطابق ہر بھائی کو دو حصے اور ہر بہن کو ایک حصہ ملے گا۔
القرآن الکریم:(النساء4: 11)
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ ۚ
صحيح مسلم:(رقم الحديث:9-(1623)،ط: دارطوق النجاة)
وعن محمد بن النعمان بن بشير ، يحدثانه عن النعمان بن بشير أنه قال:إن أباه أتى به رسول الله ﷺ فقال: إني نحلت ابني هذا غلاما كان لي، فقال رسول الله ﷺ: أكل ولدك نحلته مثل هذا؟ فقال: لا. فقال رسول الله ﷺ: فارجعه.
الهندية:(4/ 391،ط:دارالفكر)
«ولو وهب رجل شيئا لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض في ذلك لا رواية لهذا في الأصل عن أصحابنا، وروي عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - أنه لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل له في الدين، وإن كانا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف - رحمه الله تعالى - أنه لا بأس به إذا لم يقصد به الإضرار، وإن قصد به الإضرار سوى بينهم يعطي الابنة مثل ما يعطي للابن وعليه الفتوى هكذا في فتاوى قاضي خان وهو المختار، كذا في الظهيرية.
والدین کا اپنی زندگی میں اپنے بچوں کے درمیان ایک کروڑ کی رقم تقسیم کرنے کا طریقہ
یونیکوڈ احکام وراثت 0