کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص فوت ہو ا، جس کی پانچ بہنیں زندہ ہیں بھانجے اور بھتیجے بھی زندہ ہیں ،لیکن اس کے والدین زندہ نہیں ہیں اور نہ ہی اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ بھائی ہیں ۔ اس کی جائیدا د کس طرح تقسیم ہوگی ؟
پوچھی گئی صورت میں میت کے تجہیز وتکفین، قرض کی ادائیگی اورکل مال کے ایک تہائی سے وصیت نافذ کرنے کے بعد ،بقیہ کل مال کے پندرہ (15)حصے کیے جائیں گے جس میں سے ہر بہن کو دو حصے اور باقی ماندہ پانچ حصے بھتیجوں میں تقسیم ہوں گے ، بھانجوں کو کچھ بھی نہیں ملے گا ۔
القرأن الكريم :(النساء:/4 176)
ﵟوَإِن كَانُوٓاْ إِخۡوَةٗ رِّجَالٗا وَنِسَآءٗ فَلِلذَّكَرِ مِثۡلُ حَظِّ ٱلۡأُنثَيَيۡنِۗ ﵞ
الهندية: (6/ 450، ط:دارالفكر)
الخامسة - الأخوات لأب وأم للواحدة النصف وللثنتين فصاعدا الثلثان، كذا في خزانة المفتين ومع الأخ لأب وأم للذكر مثل حظ الأنثيين .
والدین کا اپنی زندگی میں اپنے بچوں کے درمیان ایک کروڑ کی رقم تقسیم کرنے کا طریقہ
یونیکوڈ احکام وراثت 0