کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میری دو بیویاں ہیں، ایک بیوی سے چار لڑکے اور ایک لڑکی ہے، جب کہ دوسری بیوی سے ایک لڑکا اور ایک لڑکی ہے، میں اپنی زندگی میں اپنی میراث تقسیم کرناچاہتا ہوں ۔شرعی طور پربیویوں اور بچوں کو کتنا کتنا حصہ ملے گا ؟اوراپنے لیے کیا رکھوں ؟
براہ کرم ! رہنمائی فرمائیں ۔
واضح رہے کہ وارثت شرعاً انتقال کے بعد جاری ہوتی ہے ،زندگی میں ہر شخص اپنی ملکیت میں تصرف کا مالک اور مختار ہوتا ہے،لہذا ذکرکردہ صورت میں جائیداد وغیرہ آپ کی ملکیت ہیں،تاہم اگر آپ اپنی زندگی میں اپنا مال اپنی خوشی ورضامندی سے بچوں میں تقسیم کرنا چاہیں تو اس کی اجازت ہے،لیکن شرعاً یہ میراث نہیں کہلائے گی ،بلکہ یہ آپ کی طرف سے اولاد اور بیویوں کے لیےگفٹ(ہبہ)ہے اور ہبہ میں آپ جیسے چاہیں تقسیم کرسکتے ہیں، البتہ تمام اولاد میں برابری کرنی چاہییے، بغیر کسی شرعی عذر کے اولاد میں سے کسی کو محروم کرنا یا کسی کو کم ،زیادہ دینا مناسب نہیں۔
الدرالمختار:(5/ 688، ط:دارالفكر)
(وتصح بإيجاب ك وهبت ونحلت وأطعمتك هذا الطعام ولو) ذلك (على وجه المزاح).
الفقه الإسلامي وأدلته:(5/ 3983، ط:دارالفكر)
واستحساناً عند الكاساني وبعض الحنفية: ليس القبول من الموهوب له ركناً، وإنما الركن فقط هو الإيجاب من الواهب؛ لأن الهبة في اللغة عبارة عن مجرد إيجاب المالك من غير شرط القبول، وإنما القبول لثبوت حكمها أي الأثر المترتب عليها .
والدین کا اپنی زندگی میں اپنے بچوں کے درمیان ایک کروڑ کی رقم تقسیم کرنے کا طریقہ
یونیکوڈ احکام وراثت 0