کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک خاتون کا پہلا نکاح ہوا جس میں ایک بیٹا اوردو بیٹاں ہوئی اورشوہر کا انتقال ہوا ، پھر دوسرے نکاح کے بعد خاتون نے اپنے زیوراور رقم اپنے بھائی کے پاس اس وجہ سے رکھوا ئی کہ مرنے کے بعد وہ سب کچھ اولاد کو دیا جائے نہ کہ دوسرے شوہر کو اور وہ خاتون فوت ہوگئی ۔
کیا اب دوسرے شوہر کو شرعی حصہ اس زیور اور رقم سے دیا جائے گا یا نہیں ؟
واضح رہے کہ مرحومہ کی وفات کے وقت اُس کی تمام مملوکہ جائیداد کو اُس کے ترکہ میں شمار کیا جائے گا اور ترکہ کو تمام اولاد اور شوہر کے درمیان شرعی حصے کے مطابق تقسیم کیا جائے گا، لہٰذا مذکورہ خاتون کی تمام نقدی اور زیورات جو اُس نے اپنے بھائی کے پاس رکھوائے ہیں، ان میں اُس کے دوسرے شوہر کو اُس کا شرعی حصہ ملے گا اور مرحومہ کی اپنی اولاد کے بارے میں وصیت شرعاً معتبر نہیں ہے۔
القرآن الکریم:(النساء12:4)
وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَـرَكَ اَزْوَاجُكُمْ اِنْ لَّمْ يَكُنْ لَّـهُنَّ وَلَـدٌ ۚ فَاِنْ كَانَ لَـهُنَّ وَلَـدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَـرَكْنَ ۚ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّـةٍ يُّوْصِيْنَ بِـهَآ اَوْ دَيْنٍ
مسند دارمى:(رقم الحديث:3303)
عن عمرو بن خارجة، قال: كنت تحت ناقة النبي صلى الله عليه وسلم، وهي تقصع بجرتها، ولعابها ينوص بين كتفي، سمعته يقول: «ألا إن الله قد أعطى كل ذي حق حقه، فلا يجوز وصية لوارث
والدین کا اپنی زندگی میں اپنے بچوں کے درمیان ایک کروڑ کی رقم تقسیم کرنے کا طریقہ
یونیکوڈ احکام وراثت 0