السلام علیکم ورحمۃ اللہ تعالی وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں مفتیان گرامی اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک عورت شادی کے 20 سال ایک گھر میں رہے اور شوہر کے ساتھ ناچاقی کی صورت میں وہ گھر بار چھوڑ کر کہیں اور پناہ لے لیتی ہے اور فرقانونی کاروائی کرتے ہوئے تھانے سے شوہر کے پیچھے سمن بھیج دیتی ہے اور طلاق کا مطالبہ کرتی ہے لڑکی کے بھائی اس کے شوہر کو بلا کر تھانے میں اس سے طلاق دلوا دیتے ہیں ۔لڑکی کے بھائی اس کو بہت سمجھاتے ہیں کہ گھر پہ ا جاؤ ہم تجھے معاف کرتے ہیں اپنے شوہر کے ساتھ زندگی گزارو بس لیکن وہ کسی بھی صورت میں نہ مانی پھر خاندان والوں نے اس سے کہا کہ اگر تو نہیں اتی تو ہمارے ابا و اجداد کے وطن پر بند ہوگی تیرا جینا مرنا ہمارے ساتھ نہیں ہوگا اس نے قبول کر لیا۔اب مسئلہ یہ ہے کہ کیا اس لڑکی کا کوئی حق باقی ہے جیسا کہ بہنوں کا کوئی حصہ وغیرہ ہوتا ہے جب کہ بھائی اور خاندان اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھتے کیا شریعت کی رو کے مطابق ایسا کرنا جائز ہے؟قران اور حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائے
واضح رہے کہ میراث اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ ایک حق ہے، جو ہر وارث کو اس کے حصے کے مطابق دیا جاتا ہے۔ کسی وارث کو میراث سے محروم کرنا جائز نہیں ہے۔
لہذا پوچھی گئی صورت میں بھائیوں کا بہن کو میراث سے محروم کرنا جائز نہیں ہے۔
دلائل:
شعب الايمان للبيهقي،رقم الحديث:7965،ط:دارالكتب العلمية)
عن أبي هريرةقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:من قطع ميراثا فرضه الله ورسوله قطع الله به ميراثا من الجنة.
تكملة حاشية ابن عابدين:(8/116،ط:دارالفكر)
الارث جبري لا يسقط بالاسقاط.
واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب
دارالإفتاء دارالعلوم حنفیہ