السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
مفتی صاحب امید ہے خیر و عافیت سے ہوں گے ❣️
مفتی صاحب ایک مسئلہ کے بارے میں پوچھنا تھا واضح رہے کہ ہم (میں اور میرے چاچا کے بیٹے ) ایک عرصہ سے یعنی جب سے ہم کراچی میں رہتے ہیں ایک ساتھ رہتے ہیں کھانا پینا رہائش جو کچھ بھی ہو سب ایک ساتھ کرتے ہیں
جو جتنا بھی کماتا چاہے کم ہو یا زیادہ ایک ساتھ ہی سب کچھ کرتے ہیں
میری سرکاری نوکری ہے تنخواہ بہتر ہے جبکہ میرے چاچا کے بیٹے کمپنی میں کام کرتے تھے بچیس تیس ہزار تنخواہ تھی اس سب حالات میں ہم نے ایک مکان خریدا جس میں ہم رہ رہے ہیں
اور ایک دوکان میرے چھوٹے بیٹے نے شروع کی اس کے بعد ایک چچا زاد اس میں بیٹھتا کماتا اسکا انتقال ہوگیا اس کے بعد اب دوسرا چاچا کا بیٹا بیٹھتا ہے ہم تقسیم کرنا چاہتے ہیں
تو ہم کس طرح تقسیم کریں میرے جس چاچا کے بیٹے کا انتقال ہوا ہے وہ میرا داماد بھی ہے اب اگر ہم دوکان اور مکان سب کو دو حصوں میں تقسیم کریں یعنی ایک حصہ میرا اور ایک میرے چاچا کے بیٹوں کا تو کیا اس طرح درست ہے ؟
پھر جو حصہ چاچا کے بیٹے کو دوں تو اسمیں مرحوم کا بھی حصہ ہے اسکی بیوی ایک چھوٹا بیٹا اور دو چھوٹے بیٹیاں ہیں دوسرا چاچا کا بیٹا یہ کہ رہا ہے کہ اپنے بھائی کا حصہ میں اپنے پاس رکھنا چاہتا ہوں اپنے بھتیجوں کا خرچ نان و نفقہ میرے زمہ ہوگا تو اس طرح درست ہے ؟
اور اگر ہم اس پر لازم کریں کہ آپ اس کے حصہ میں سے فکس پانچ ہزار یا چھ ہزار روپے ان بچوں اور بیوہ کو دوگے یہ درست ہے ؟
براہ کرم تفصیل سے رہنمائی فرمائیں
واضح رہے کہ شریعت مطہرہ نے باہمی معاملات کو طے اور واضح رکھنے کا حکم دیا ہے، معاملات کا طے نہ ہونا اکثر جھگڑے کا سبب بنتا ہے ۔
لہذٰا پوچھی گئی صورت میں اگر آپ کا آپ کے چچا کے بیٹوں سے کوئی معاہدہ ہوا تھا تو اس پر عمل ضروری ہے، لیکن اگر کوئی معاہدہ نہیں ہوا تو باہمی رضا مندی سے برابر تقسیم کرنا بھی جائز ہے، نیز اس میں مرحوم چچا زاد کا بھی اس کے بھائیوں کے حصے کے برابر حصہ ہوگا،جو کہ اس کی بیوہ اور بچوں کو دیا جائے گا اور اگر اس کے بچے چھوٹے ہیں، نفع نقصان نہیں پہچان سکتے تو ان کا حصہ ان کے چچا کے سپرد کیا جا سکتا ہے، تاہم یہ حصہ چچا کے پاس امانت ہوگا، اس میں بچوں کے نفقہ کے علاوہ تصرف کرنا جائز نہیں ہوگا، نیز اگر چچا بچوں کے حصہ کو کاروبار میں استعمال کرنا چاہیں تو ان کے لیے حصہ کے بقدر مناسب نفع طے کر دیں اور جو ماہانہ پانچ ہزار خرچ دیں، اسے کل منافع سے نفی کرتے رہیں۔
الشامية:(305/4، ط: دار الفکر)
"فما کان من ربح فهو بینهما علی قدر رؤوس أموالهما" .
ایضا:(648/5،ط: دارالفکر)
"ومن شروطها: کون نصیب المضارب من الربح حتی لو شرط له من رأس المال، أو منه ومن الربح فسدت. وفي الجلالیة: کل شرط یوجب جهالة في الربح، أو یقطع الشرکة فیه یفسدها. (قوله: في الربح) کما إذا شرط له نصف الربح، أو ثلثه".
ایضا:(6/ 714،ط: دارالفکر)
"الولاية في مال الصغير للأب ثم وصيه ثم وصي وصيه ولو بعد، فلو مات الأب ولم يوص فالولاية لأبي الأب ثم وصيه ثم وصي وصيه، فإن لم يكن فللقاضي ومنصوبه".
الھندیة:(320/2، دارالفکر)
فإن عملا وربحا فالربح على ما شرطا وإن خسرا فالخسران على قدر رأس مالهما، كذا في محيط السرخسی.