السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ ۔
میراث کا مسئلہ ہے ۔1.شوہر بیوی 2 بیٹے 7 بیٹیاں ۔ رقم۔1 کروڑ۔ ذکر کردہ ورثا میں یہ رقم کس طرح تقسیم ہوگی؟
اور والدین اپنی زندگی میں یہ تقسیم کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ والدین اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کے خود مالک و مختار ہوتے ہیں اور اس میں جیسے چاہیں تصرف کرسکتے ہیں، ان سے کسی قسم کے مطالبے کا حق اولاد کو حاصل نہیں ہوتا اور نہ ہی والدین کی زندگی میں شرعی طور پر میراث تقسیم کی جاسکتی ہے، البتہ اگر والدین اپنی مرضی سے اپنی زندگی میں اولاد کے درمیان جائیداد تقسیم کرنا چاہیں تو یہ تقسیم ”ہبہ“(گفٹ) کہلائے گی، جس کے لیے ضروری ہے کہ جتنا حصہ بیٹے کو دیا جائے اتنا ہی حصہ بیٹی کو بھی دیا جائے۔
لہذا پوچھی گئی صورت میں ایک کروڑ کی رقم میں سے والد اپنے لیے جتنا چاہے رکھ سکتا ہے، جتنی رقم اپنی بیوی کو دینا چاہے دے دے اور باقی رقم اگر تقسیم کرنا چاہیں تو تمام اولاد بیٹے، بیٹیوں میں برابر برابر تقسیم کرے، کسی کو کم، زیادہ نہ دے، کیونکہ اس سے حدیث شریف میں منع کیا گیا ہے۔
*صحيح البخارى:(رقم الحديث:2586،ط:دارطوق النجاة)*
عن النعمان بن بشير : «أن أباه أتى به إلى رسول الله ﷺ فقال: إني نحلت ابني هذا غلاما، فقال: أكل ولدك نحلت مثله، قال: لا، قال:فارجعه.
*الشامية:(444/4،ط:دارالفكر)*
(قوله: متى وقف) أي على أولاده لأنه منشأ الجواب المذكور كما تعرفه، وبه يظهر فائدة التقييد بقوله حال صحته (قوله كما حققه مفتي دمشق إلخ) أقول: حاصل ما ذكره في الرسالة المذكورة أنه ورد في الحديث أنه - صلى الله عليه وسلم - قال «سووا بين أولادكم في العطية ولو كنت مؤثرا أحدا لآثرت النساء على الرجال» رواه سعيد في سننه وفي صحيح مسلم من حديث النعمان بن بشير «اتقوا الله واعدلوا في أولادكم» فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا والوقف عطية فيسوي بين الذكر والأنثى، لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة. وفي الخانية ولو وهب شيئا لأولاده في الصحة، وأراد تفضيل البعض على البعض روي عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم وعليه الفتوى وقال محمد: ويعطي للذكر ضعف الأنثى، وفي التتارخانية معزيا إلى تتمة الفتاوى قال: ذكر في الاستحسان في كتاب الوقف، وينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في العطايا والعدل في ذلك التسوية بينهم في قول أبي يوسف وقد أخذ أبو يوسف حكم وجوب التسوية من الحديث، وتبعه أعيان المجتهدين، وأوجبوا التسوية بينهم وقالوا يكون آثما في التخصيص وفي التفضيل.
والدین کا اپنی زندگی میں اپنے بچوں کے درمیان ایک کروڑ کی رقم تقسیم کرنے کا طریقہ
یونیکوڈ احکام وراثت 0