السلام عليكم ورحمة الله و بركاته
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام کہ مدرسہ میں یا مسجد میں اساتذہ کا موبائل چارج کرنا اس کا حکم کیا ہے؟
واضح رہے کہ موبائل فون، لیپ ٹاپ یا کوئی اور ڈیوائس مسجد یا مدرسے کے کسی کام سے متعلق ہو یا ذاتی استعمال کے لیے ہو، لیکن انتظامیہ کی طرف سے ان چیزوں کے لیے بجلی استعمال کرنے کی اجازت ہو تو اُسے مسجد یا مدرسے کی بجلی سے چارج کرنا جائز ہے۔
اور اگر وہ موبائل فون،لیپ ٹاپ وغیرہ ذاتی استعمال کے لیے ہو اور انتظامیہ کی طرف سے ان چیزوں کے لیے بجلی استعمال کرنے کی اجازت نہ ہو تو اُسے اس بجلی سے چارج کرنا جائز نہیں، تاہم اگر کسی نے مجبوری یا غلطی سے ذاتی کام کے لیے چارج کر لیا ہو تو اُسے چاہیے کہ اندازے کے مطابق اُس بجلی کےخرچ کی رقم مسجد یا مدرسے میں دے، تاکہ حق ادا ہو جائے اور امانت میں کوتاہی نہ ہو۔
الشاميه(4/ 366،ط:دارالفكر)
«شرط الواقف كنص الشارع أي في المفهوم والدلالة، ووجوب العمل به»
وایضا:(4/ 445،ط:دارالفكر)
«أنهم صرحوا بأن مراعاة غرض الواقفين واجبة،»
الهندية:(459/2،ط:دارالفكر )
إن أراد الإنسان أن يدرس الكتاب بسراج المسجد إن كان سراج المسجد موضوعا في المسجد للصلاة قيل: لا بأس به وإن كان موضوعا في المسجد لا للصلاة بأن فرغ القوم من صلاتهم وذهبوا إلى بيوتهم وبقي السراج في المسجد قالوا: لا بأس بأن يدرس به إلى ثلث الليل، وفيما زاد على الثلث لا يكون له حق التدريس، كذا في فتاوى قاضي خان.
سوشل میڈیا پر اللہ تعالیٰ کا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام شئیر نہ کرنے پر کسی کو بددعا دینا
یونیکوڈ 0