مفتی صاحب
میں قربانی کی نیت سے اٹھ ماہ قبل دنبے خریدے تھے اس وقت ایک دنبے کی قیمت چالیس ہزار تھی اور اب اگر میں ایک دنبہ فروخت کروں گا تو اس کی قیمت ایک لاکھ سے اوپر ہوگی اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا میں یہ ایک دنبہ بیچ کر اسی پیسوں سے گائے خرید سکتا ہوں۔ہمارے حصے زیادہ ہوتے ہیں دنبے میں ایک حصہ ہوتا ہے اور گائے میں تو سات حصے کرسکتے ہیں ایک دنبے کی قیمت کے پیسوں سے اگر میں جانور خرید لوں بڑا تو اس کے ساتھ حصے ہوں گے مفتی صاحب کیا میں ایک دمبے کے پیسوں سے بڑا جانور خرید کر
ساتھ حصے کر سکتا ہوں مجھے اس دنبے کے پیسوں کے ساتھ اور پیسے ملانے پڑیں گے یا اسی دنبے کے پیسوں سے میں اگر جانور خرید ہوں تو میرے ساتھ حصے کے قربانیاں اس سے ہو جائیں گے .برائے مہربانی میری اس حوالے سے رہنمائی فرمائیں۔
تنقیح: سائل نے مزید وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ یہ دنبے بغیر تعیین کے خریدے گئے یعنی قربانی کی نیت تھی۔
کس کی طرف سے ہوگی؟اس کی نیت نہیں کی گئی ۔
الجواب باسم ملہم الصواب
واضح رہے کہ پوچھی گئی صورت میں آپ نے جو دنبے قربانی کی نیت سے خریدے ہیں اس میں سے ایک دنبہ اگر بیچ کر اس کے پیسوں سے ایک بڑا جانور خریدا جائے تو اس میں سات مختلف افراد کی واجب قربانی کی نیت کرنا جائز ہے، قربانی ادا ہو جائے گی، تاہم ایسا کرنا مناسب نہیں۔
دلائل:
الهندية:(5/ 304،ط:دارالفكر)
ولو اشترى بقرة يريد أن يضحي بها، ثم أشرك فيها ستة يكره ويجزيهم؛ لأنه بمنزلة سبع شياه حكما، إلا أن يريد حين اشتراها أن يشركهم فيها فلا يكره، وإن فعل ذلك قبل أن يشتريها كان أحسن، وهذا إذا كان موسرا، وإن كان فقيرا معسرا فقد أوجب بالشراء فلا يجوز أن يشرك فيها، وكذا لو أشرك فيها ستة بعد ما أوجبها لنفسه لم يسعه؛ لأنه أوجبها كلها لله تعالى، وإن أشرك جاز، ويضمن ستة أسباعها، وقيل في الغني: إنه يتصدق بالثمن.
الدرالمختار مع رد المحتار:(6/ 317،ط:دارالفكر)
(وصح) (اشتراك ستة في بدنة شريت لأضحية) أي إن نوى وقت الشراء الاشتراك صح استحسانا وإلا لا (استحسانا وذا) أي الاشتراك (قبل الشراء أحب...(قوله أي إن نوى وقت الشراء الاشتراك صح استحسانا وإلا لا) كذا في بعض النسخ، والواجب إسقاطه كما في بعض النسخ، لأن موضوع المسألة الاستحسانية أن يشتريها ليضحي بها عن نفسه كما في الهداية والخانية وغيرهما، ولذا قال المصنف بعد قوله استحسانا وذا قبل الشراء أحب. وفي الهداية: والأحسن أن يفعل ذلك قبل الشراء ليكون أبعد عن الخلاف وعن صورة الرجوع في القربة اهـ. وفي الخانية: ولو لم ينو عند الشراء ثم أشركهم فقد كرهه أبو حنيفة.
أقول: وقدمنا في باب الهدي عن فتح القدير معزوا إلى الأصل والمبسوط: إذا اشترى بدنة لمتعة مثلا ثم أشرك فيها ستة بعدما أوجبها لنفسه خاصة لا يسعه، لأنه لما أوجبها صار الكل واجبا بعضها بإيجاب الشرع وبعضها بإيجابه، فإن فعل فعليه أن يتصدق بالثمن، وإن نوى أن يشرك فيها ستة أجزأته لأنه ما أوجب الكل على نفسه بالشراء، فإن لم يكن له نية عند الشراء ولكن لم يوجبها حتى شرك الستة جاز. والأفضل أن يكون ابتداء الشراء منهم أو من أحدهم بأمر الباقين حتى تثبت الشركة في الابتداء اهـ ولعله محمول على الفقير أو على أنه أوجبها بالنذر، أو يفرق بين الهدي والأضحية تأمل.
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دار الافتاء جامعہ دارالعلوم حنفیہ،کراچی