سوال :اجتماعی قربانی کا کیا حکم ہے اگر اپنے شراکت دار کو نہ جانتے ہوں کہ ان کا ذریعہ معاش کیسا ہے اس کے متعلق رہنمائی فرمائیں ۔اجتماعی قربانی میں اگر شراکت دارکاذریعہ معاش معلوم نہ ہو
واضح رہے کہ مسلمانوں کے بارے میں حسنِ ظن اور نیک گمان رکھنے کا حکم دیا گیا ہے ،لہذا جب تک کسی کے بارے میں یقینی طور پر معلوم نہ ہو کہ اس کی آمدن صرف حرام ہی ہےتو اس وقت تک اجتماعی قربانی میں شرکت جائز ہے،محض شک وشبہ کی وجہ سے ناجائز نہیں قرار دیاجاسکتا ،البتہ بہتر یہی ہے کہ اجتماعی قربانی میں ایسےافراد کو شریک کیا جائے جن کےعقائد اور آمدن کے بارے میں اطمینان ہو، اس لیے کہ غیر اسلامی عقائد کے حامل افراد یاخالص حرام آمدن والے افرادکی شرکت سے شرکاء میں سے کسی بھی قربانی درست نہیں ہوتی۔
دلائل:
الهندية:(3/210:دارالفكر)
رجل اشترى من التاجر شيئا هل يلزمه السؤال أنه حلال أم حرام قالوا ينظر إن كان في بلد وزمان كان الغالب فيه هو الحلال في أسواقهم ليس على المشتري أن يسأل أنه حلال أم حرام ويبنى الحكم على الظاهر، وإن كان الغالب هو الحرام أو كان البائع رجلا يبيع الحلال والحرام يحتاط ويسأل أنه حلال أم حرام.
الهنديه:(304/5:دارالفكر)
" وإن كان كل واحد منهم صبياً أو كان شريك السبع من يريد اللحم أو كان نصرانياً ونحو ذلك لايجوز للآخرين أيضاً، كذا في السراجية. ولو كان أحد الشركاء ذمياً كتابياً أو غير كتابي وهو يريد اللحم أو يريد القربة في دينه لم يجزئهم عندنا؛ لأن الكافر لايتحقق منه القربة، فكانت نيته ملحقةً بالعدم، فكأنه يريد اللحم، والمسلم لو أراد اللحم لايجوز عندنا".
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دار الافتاء جامعہ دارالعلوم حنفیہ،کراچی