کیا فرماتے مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص اپنی بیوی کو شراب کے نشے میں طلاق دیتا ہے، لیکن جب نشہ اترتا ہے تو وہ اس سے مکر جاتا ہے، اسے یاد نہیں رہتا کہ اس نے طلاق دی ہے؟
واضح رہے کہ شراب پینا بذاتِ خود سخت گناہ ہےاور اس گناہ کے ارتکاب سے انسان اپنے اقوال و افعال کے نتائج سے بری نہیں ہوتا، اسی وجہ سےاگر کوئی شخص نشے کی حالت میں بیوی کو طلاق دے تو وہ طلاق شرعاً واقع ہو جاتی ہے، چاہے نشہ اترنے کے بعد اسے یاد نہ رہے، یا وہ مکر جائے۔
*الشامية:(3/ 235،ط دارالفكر)*
(ويقع طلاق كل زوج بالغ عاقل) ولو تقديرا بدائع، ليدخل السكران (ولو عبدا أو مكرها) فإن طلاقه صحيح.
*الشامیة:(3/ 239،ط:دارالفکر*)
وبين في التحرير حكمه أنه إن كان سكره بطريق محرم لا يبطل تكليفه فتلزمه الأحكام وتصح عبارته من الطلاق والعتاق.
*الهنديه:(1/ 353،ط:دارالفكر)*
«وطلاق السكران واقع إذا سكر من الخمر أو النبيذ. وهو مذهب أصحابنا رحمهم الله تعالى كذا في المحيط.
بیوی کا شوہر سے کہنا کہ آپ مجھے میرے بھائی کی طرح پیارے ہیں یا میں آپ کو اپنے بھائی کی طرح پیار کرتی ہوں
یونیکوڈ طلاق 0