السلام علیکم
مفتی صاحب ایک مسئلہ ہے ایک شخص کو طلاق کے بہت زیادہ وسوسے اتے ھیں کبھی کبھی بغیر اواز کے ہونٹ اور زبان ہل جاتی ہے کیا زبان اور ہونٹ ہلانے سے طلاق کا کیا حکم ہے کیا زبان کی حرکت سے طلاق واقع ہو جاتی ہے کہ نہیں رہنمای کر دیں؟
واضح رہےکہ طلاق کے واقع ہونے کے لیے زبان سے طلاق کے الفاظ کا واضح تلفظ (ادا کرنا) ضروری ہوتا ہے، صرف دل میں طلاق کا خیال آنا، یا وسوسہ ہونا، یا زبان و ہونٹوں کی بے آواز حرکت ہونا،ان سب سے طلاق واقع نہیں ہوتی،جب تک کہ طلاق کے الفاظ ادانہ کیے جائیں،لہذا پوچھی گئی صورت میں سائل کے ذہن میں صرف طلاق کے خیالات یا وسوسے آنا، یا زبان و ہونٹوں کی ہلکی حرکت ہونا،ان سب صورتوں میں اس کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، بشرطیکہ اس نے زبان سے طلاق کے الفاظ واضح طور پر ادا نہ کیے ہوں۔
*صحيح البخاري:(145/3،رقم الحديث:2528،ط:دارطوق النجاة*)
عن أبي هريرة قال: قال النبي ﷺ: إن الله تجاوز لي عن أمتي ما وسوست به صدورها، ما لم تعمل أو تكلم.
*الشامية:(230/3،ط:دارالفكر)*
قوله وركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالة على معنى الطلاق من صريح أو كناية فخرج الفسوخ على ما مر، وأراد اللفظ ولو حكما ليدخل الكتابة المستبينة وإشارة الأخرس والإشارة إلى العدد بالأصابع في قوله أنت طالق هكذا كما سيأتي.وبه ظهر أن من تشاجر مع زوجته فأعطاها ثلاثة أحجار ينوي الطلاق ولم يذكر لفظا لا صريحا ولا كناية لا يقع عليه كما أفتى به الخير الرملي وغيره، وكذا ما يفعله بعض سكان البوادي من أمرها بحلق شعرها لا يقع به طلاق وإن نواه.
بیوی کا شوہر سے کہنا کہ آپ مجھے میرے بھائی کی طرح پیارے ہیں یا میں آپ کو اپنے بھائی کی طرح پیار کرتی ہوں
یونیکوڈ طلاق 0