السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
مدرز ملک بینک جو کراچی میں کھلا ہے، اس کے بارے میں مفتیانِ عظام کیا فرماتے ہیں ؟
واضح رہے کہ اسلام میں رضاعت کے ذریعے وہ رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نسب سے حرام ہوتے ہیں، اس لیے بلا ضرورت دودھ پلانے یا مختلف خواتین کا دودھ جمع کر کے بچوں کو پلانے سے رضاعی رشتوں میں شدید خلط اور شبہ پیدا ہوتا ہے، رضاعت میں معمولی شبہ بھی معتبر مانا جاتا ہے، جیسا کہ حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ کے واقعہ سے ثابت ہے کہ ایک سیاہ فام عورت نے حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ اور ان کی بیوی کو دودھ پلانے کا دعویٰ کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب یہ بات کہہ دی گئی تو اب بیوی کو اپنے سے جدا کرو۔
لہٰذا پوچھی گئی صورت میں مدر ملک بینک قائم کرنا جائز نہیں، ضرورت مند بچوں کے لیے وہی طریقہ اپنایا جائے جو عہدِ نبوی سے رائج ہے، یعنی کسی مخصوص خاتون کو دودھ پلانے پر مقرر کیا جائے۔
*صحيح البخاري:(173/3،رقم الحديث:2660،ط:دار طوق النجاة)*
حدثنا أبو عاصم، عن عمر بن سعيد، عن ابن أبي مليكة، عن عقبة بن الحارث قال: «تزوجت امرأة فجاءت امرأة فقالت: إني قد أرضعتكما، فأتيت النبي ﷺ، فقال: وكيف وقد قيل، دعها عنك. أو نحوه.»
*سنن إبن ماجة:(119/3،رقم الحديث:1937،ط: دارالرسالة العالمية)*
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا عبد الله بن نمير، عن الحجاج، عن الحكم، عن عراك بن مالك، عن عروة عن عائشة، قالت: قال رسول الله ﷺ: «يحرم من الرضاع ما يحرم من النسب».
*الشامية:(31/3،ط: دارالفكر)*
(قوله: نسبا) تمييز عن نسبة تحريم للضمير المضاف إليه، وكذا قوله: مصاهرة، وقوله: رضاعا تمييز عن نسبة تحريم إلى الكل، يعني يحرم من الرضاع أصوله وفروعه وفروع أبويه وفروعهم، وكذا فروع أجداده وجداته الصلبيون، وفروع زوجته وأصولها وفروع زوجها وأصوله وحلائل أصوله وفروعه.
*النهر الفائق:(399/2،ط: دارالكتب العلمية)*
وفي (الولوالجية) الواجب على النساء أن لا يرضعن من غير ضرورة فإن فعلن فليحفظن أو يكتبن ثم إذا دعت الحاجة فلا ينفي أن ترضعه الحمقى للنهي عن ذلك.