السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ایک گائے کے اندر چھ حصے چھ لوگوں نے لیے ساتویں حصے کے لیے ایک شخص ایا اور اس نے کہا کہ میں نفلی قربانی کر رہا ہوں اور 15، 20 ،اپنے مرحومین کے نام اس کا ثواب کرنا چاہتا ہوں تو کیا اس کا اس طرح قربانی میں حصہ لینا درست ہے اور وہ 20، 25 نام کس طرح لیے جائیں گے؟
واضح رہے کہ قربانی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کا قرب حاصل کرنا ہے، چاہے وہ واجب قربانی ہو یا نفلی، لہٰذا پوچھی گئی صورت میں اگر ساتواں شریک اپنی قربانی کو نفلی نیت کے ساتھ اپنے مرحومین کو ایصالِ ثواب کے لیے کرے تو اس کا باقی شرکا کی قربانی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، سب کی قربانیاں درست ہوجائیں گی۔
نفلی قربانی میں جس طرح ایک مرحوم کے لیے نیت کرنا درست ہے، اسی طرح متعدد مرحومین کے لیے نیت کرنا بھی درست ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ قربانی کرتے وقت سب مرحومین کو نیت میں شامل کر لے یا ان سب کے نام لے لے۔
*بدائع الصنائع: (5/ 71،ط:دارالکتب العلمیة)*
ولو أرادوا القربة؛ الأضحية أو غيرها من القرب أجزأهم سواء كانت القربة واجبة أو تطوعا أو وجبت على البعض دون البعض، وسواء اتفقت جهات القربة أو اختلفت بأن أراد بعضهم الأضحية وبعضهم جزاء الصيد وبعضهم هدي الإحصار وبعضهم كفارة شيء أصابه في إحرامه وبعضهم هدي التطوع وبعضهم دم المتعة والقران وهذا قول أصحابنا الثلاثة وقال»زفر رحمه الله: لا يجوز إلا إذا اتفقت جهات القربة بأن كان الكل بجهة واحدة.
(ولنا) أن الجهات - وإن اختلفت صورة - فهي في المعنى واحد؛ لأن المقصود من الكل التقرب إلى الله - عز شأنه.
*حاشية الطحطاوي: (216،ط:دارالکتب العلمیة)*
ثم أنه إن جمع بين عبادات الوسائل في النية صح كما لو اغتسل لجنابة وعيد وجمعة إجتمعت ونال ثواب الكل وكما لو توضأ لنوم وبعد غيبة وأكل لحم جزور وكذا يصح لو نوى نافلتين أو أكثر كما لو نوى تحية مسجد وسنة وضوء وضحى وكسوف والمعتمد أن العبادات ذات الأفعال يكتفي بالنية في أولها ولا يحتاج إليها في كل جزء إكتفاء بإنسحابها عليها ويشترط لها الإسلام والتمييز والعلم بالمنوى وأن لا يأتي بمناف بين النية والمنوي.