السلام علیکم
ایک شخص کے پاس تین تولہ سونا ہے کیا اس پر زکات فرض ہے اور قرضدار بھی ہے تقریبن سات لاکھ کا
اور دوسرا سوال کیا قربانی بھی فرض ہے۔ رہنمائی فرما دیں۔
پوچھی گئی صورت میں اگر قرضہ حق دار کو دینے کے بعد بقیہ مال صرف سونا ہو تو اس میں زکوۃ لازم ہونے کے لیے ساڑھے سات تولہ ہونا ضروری ہے اور اگر سونے کے ساتھ کوئی اور قابل زکوۃ مال (چاندی ، نقد روپیہ ، مال تجارت) ہو اور ان کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کے بقدر ہو تو زکوة لازم ہے، ورنہ زکوہ لازم نہیں اور یہی حکم نصاب قربانی کاہے، تاہم قربانی کے نصاب میں دیگر ضرورت سے زائد مال( غیر رہائشی زمین اور سال بھر استعمال نہ ہونے والے برتن،فرنیچر،گاڑی کپڑے جوتےوغیرہ)بھی شمارہوگا۔
العنایة:(160/2،ط:دار الفکر)*
(ومن كان عليه دين يحيط بماله فلا زكاة عليه) وقال الشافعي: تجب لتحقق السبب وهو ملك نصاب تام. ولنا أنه مشغول بحاجته الأصلية فاعتبر معدوما كالماء المستحق بالعطش وثياب البذلة والمهنة (وإن كان ماله أكثر من دينه زكى الفاضل إذا بلغ نصابا) لفراغه عن الحاجة الأصلية.
*الھندیة:(191/1،ط:دار الفکر)*
وهي واجبة على الحر المسلم المالك لمقدار النصاب فاضلا عن حوائجه الأصلية كذا في الاختيار شرح المختار، ولا يعتبر فيه وصف النماء ويتعلق بهذا النصاب وجوب الأضحية.
*مراقی الفلاح شرح نورالایضاح:(272،ط:المکتبة العصریة)*
ونصاب الذهب عشرون مثقالا ونصاب الفضة مائتا درهم ۔
*الھندیة:(179/1،ط:دارالفکر)*
وتضم قيمة العروض إلى الثمنين والذهب إلى الفضة قيمة كذا في الكنز ۔۔۔ ولو ضم أحد النصابين إلى الأخرى حتى يؤدي كله من الذهب أو من الفضة لا بأس به لكن يجب أن يكون التقويم بما هو أنفع للفقراء قدرا ورواجا۔۔۔ثم في تقويم عروض التجارة التخيير يقوم بأيهما شاء من الدراهم والدنانير إلا إذا كانت لا تبلغ بأحدهما نصابا فحينئذ تعين التقويم بما يبلغ نصابا هكذا في البحر الرائق.