السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک ہی امام دو جگہ جمعہ کے خطبے پڑھا سکتا ہے ؟
مہربانی ہوگی اس کا جواب کا منتظر ہوں گا۔
واضح رہے کہ ایک امام کا ایک ہی دن میں دو مختلف جگہوں پر جمعہ کا خطبہ دینا اور نماز پڑھانا جائز نہیں، کیونکہ ایک جگہ فرض ادا کرنے کے بعد دوسری جگہ دوبارہ جمعہ پڑھانا شرعاً درست نہیں، البتہ اگر کسی ایک جگہ امام صرف خطبہ دے اور نماز کی امامت کوئی دوسرا شخص کرے، پھر وہ امام کسی دوسری جگہ جا کر وہاں خطبہ اور نماز دونوں ادا کرے تو ایسا کرنا مناسب نہیں،تاہم اگر ایسا کرلیا تو نمازِ جمعہ ادا ہو جائے گی ۔
الدر المختار:(111/1،ط: دارالفكر)*
لا ينبغي أن يصلي غير الخطيب) لانهما كشئ واحد (فإن فعل بأن خطب صبي بإذن السلطان صلى بالغ جاز) هو المختار.
*الشامية:(161/2،ط: دارالفكر)*
(قوله لأنهما) أي الخطبة والصلاة كشيء واحد لكونهما شرطا ومشروطا ولا تحقق للمشروط بدون شرطه فالمناسب أن يكون فاعلهما واحدا ط (قوله: وصلى بالغ) أي بإذن السلطان أيضا والظاهر أن إذن الصبي له كاف لأنه مأذون بإقامة الجمعة لما في الفتح وغيره من أن الإذن بالخطبة إذن بالصلاة وعلى القلب اهـ فيكون مفوضا إليه إقامتها ولأن تقريره فيها إذن له بإنابة غيره دلالة لعلم السلطان بأنه لا تصح إمامته نعم على القول باشتراط الأهلية وقت الاستنابة لا يصح إذنه بها ولا بد له من إذن جديد بعد بلوغه، والله أعلم.
*البحر الرائق:(159/2،ط: دارالكتاب الإسلامي)*
وقد علم من تفاريعهم أنه لا يشترط في الإمام أن يكون هو الخطيب، وقد صرح في الخلاصة بأنه لو خطب صبي بإذن السلطان وصلى الجمعة رجل بالغ يجوز.
*کذا فی فتاوی محمودیہ:(269/8،ط:ادارۃ الفاروق،کراچی)*