السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
عرض یہ ہے کہ میرے ایک ساتھی ہے جو اپنا کاروبار کررہے ہیں لیکن ان کو پیسوں کی ضرورت ہے
صورت مسئلہ یہ ہے کہ وہ کہ رہے ہیں مجھے مارکیٹ سے 2لاکھ روپے کا سامان خرید کر دے دو 6مہنے کے ادھار پر میں آپ سے یہ سامان ڈھائی لاکھ روپے میں لے لونگا ابھی پیسوں کے مالک نے اس سے کہا کہ آپ میرے طرف سے وکیل بن کر سامان خرید لو اور پھر اس کو اپنے ملکیت میں لے لو۔۔
(1)آیا یہ معاملہ اسطرح جا ئزہے کہ نہیں
(2) اگر جائز نہیں ہے تو اس کے جواز کاکیاطریقہ کار ہوگا
واضح رہے کہ جب کسی شخص کو کسی چیز کی خریداری کا وکیل بنایا جائے تو وہ چیز خریدنے کے بعد مؤکل کے حوالے کرنے تک اس کے پاس امانت شمار ہوتی ہے اور اس پر لازم ہے کہ وہ اسے مؤکل تک پہنچا دے،اگر وکیل مؤکل کو حوالگی سے قبل وہی چیز خود خرید لے تو یہ ناجائز ہے، کیونکہ وکیل کا قبضہ قبضۂ امانت ہوتا ہے، جبکہ خریدنے والے کا قبضہ قبضۂ ضمان کہلاتا ہے، جو کہ شرعاً قوی قبضہ ہے۔
اصول ہےکہ قوی قبضہ، ضعیف قبضہ کے قائم مقام ہو سکتا ہے، لیکن ضعیف قبضہ قوی قبضہ کے قائم مقام نہیں ہو سکتا،لہٰذا وکیل کو اس وقت تک وہ چیز خود خریدنے کا اختیار نہیں جب تک مؤکل کو باقاعدہ طور پر اس کی ملکیت منتقل نہ کرے۔
حاشية إبن عابدين:(693/5،ط: دارالفكر)
وملك) بالقبول (بلا قبض جديد لو الموهوب في يد الموهوب له) ولو بغصب أو أمانة؛ لأنه حينئذ عامل لنفسه، والأصل أن القبضين إذا تجانسا ناب أحدهما عن الآخر، وإذا تغايرا ناب الأعلى عن الأدنى لا عكسه.
قوله ولو بغصب) انظر الزيلعي (قوله عن الآخر) كما إذا كان عنده وديعة فأعارها صاحبها له فإن كلا منهما قبض أمانة فناب أحدهما عن الآخر (قوله عن الأدنى) فناب قبض المغصوب والمبيع فاسدا عن قبض المبيع الصحيح۔۔۔الي آخره.
تبيين الحقائق:(94/5،ط: دارالكتاب الإسلامي)
قال رحمه الله (وملك بلا قبض جديد لو في يد الموهوب له) يعني لو كانت العين الموهوبة في يد الموهوب له.
مجمع الانهر:(587/2،ط: دارإحياء التراث العربي)
لا ينوب قبض الرهن عن قبض الشراء لأنه قبض أمانة فلا ينوب عن قبض الضمان وإذا كان ملكه فمات كان عليه كفنه.
العناية شرح الهداية:(422/6،ط: دارالفكر)
وقبض الأمانة لا ينوب عن قبض البيع، ولو كان لم يشهد يجب أن يصير قابضا لأنه قبض غصب.