السلام علیکم
جناب مفتی صاحب میں دیوبندی ہوں اور جہاں میں کام کرتا ہوں وہ بریلوی حضرات ہیں اور جو مجھے سیلری ملتی ہے وہ لوگوں کے خیرات زکوۃ اور فطرے سے ملتی ہے جو ہمارے ادارے کے بڑے ہیں وہ ہمیں یہی بتاتے ہیں کہ جو اپ کی تنخواہ ہے وہ خیرات زکوۃ کی ہے اور میں اکثر ان کے پیچھے نماز بھی پڑھتا ہوں اور مجھے پتہ ہے کہ وہ غلط ہے پھر بھی میں مجبوری میں ان کے پیچھے نماز پڑھتا ہوں تو مجھے یہ بتائیں جو میری تنخواہ ہے کیا وہ حرام ہے اور میری نماز ہوگی یا نہیں؟
پوچھی گئی صورت میں آپ کا بریلوی حضرات کے ہاں ملازمت کرنا اور تنخواہ لینا جائز ہے، البتہ تنخواہ کی رقم اگر صدقہ و زکوٰۃ سے ادا کی جاتی ہے تو یہ جائز نہیں، لیکن اگر وہ ادارہ زکوٰۃ وصول کر کے شرعی طریقے سے تملیک کرتا ہے تو پھر آپ کے لیے وہ اجرت (salary ) لینا جائز ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ۔
واضح رہے کہ اگر بریلوی امام کا عقیدہ یہ ہو کہ آپ ﷺعالم الغیب ہیں، ہر جگہ حاضر وناظر ہیں اور آپ ﷺ مختارِ کل ہیں تواس کے پیچھے نماز پڑھنا درست نہیں اور اگر یہ عقیدہ نہ ہو تو اکیلے نمازپڑھنے سے بہتر ہے کہ اس کے پیچھے نماز پڑھی جائے۔
القرآن الکریم :[الأنعام: 50]
قُل لَّآ أَقُولُ لَكُمۡ عِندِي خَزَآئِنُ ٱللَّهِ وَلَآ أَعۡلَمُ ٱلۡغَيۡبَ وَلَآ أَقُولُ لَكُمۡ إِنِّي مَلَكٌۖ.
تفسير ابن أبي حاتم 9/ 2913): ،ط: مكتبة نزار مصطفى الباز)
حدثنا أبي، ثنا علي بن الجعد أنبأ أبو جعفر الرازي، عن داود بن أبي هند، عن عامر الشعبي، عن مسروق، عن عائشة قالت: من زعم أنه يعلم تعني النبي صلى الله عليه وسلم ما يكون في غد فقد أعظم على الله الفرية، لأن الله يقول:لا يعلم من في السماوات والأرض الغيب إلا الله.
كنز الدقائق:(ص167، ط:دارالبشائر الاسلامي )
وكره إمامة العبد والأعرابيّ والفاسق والمبتدع والأعمى وولد الزّنا .
البدائع الصنائع:(668/1،ط: دارالکتب العلمیہ)
وإمامة صاحب الهوى والبدعة مكروهة، نص عليه أبو يوسف في (الأمالي) فقال: أكره أن يكون الإمام صاحب هوى وبدعة؛ لأن الناس لا يرغبون في الصلاة خلفه،وهل تجوز الصلاة خلفه ؟قال بعض مشايخنا إن الصلاة خلف المبتدع لا تجوز. وذكر في(( المنتقى ))رواية عن أبي حنيفة أنه كان لا يرى الصلاة خلف المبتدع، والصحيح أنه إن كان هوى يكفره لا تجوز، وإن كان لا يكفره تجوز مع الكراهة.(كتاب الصلاة ،فصل في بيان من يصلح للإمامة.
الشامیة:(356/2،ط: دارالفکر)
قوله:(نال فضل الجماعة)أفاد أن الصلاة خلفهما أولى من الإنفراد ،لكن لاينال كما ينال خلف تقي ورع ،لحديث:من صلى خلف عالم تقي فكأنما صلى خلف نبي.
نور الانوار:(37،ط)
تبدیل الملک یوحب تبدل العین حکما ....... والحجۃ فی ھذا الباب ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دخل علی بریرۃ یوما فقدمت الیہ تمرا وکان القدر یعلی من اللحم فقال علیہ السلام الاتجعلین لنا نصیبا من اللحم فقالت یارسول اللہ صلی انہ لحم تصدق علی فقال علیہ السلام لک صدقۃ ولنا ھدیۃ یعنی اذا اخذتہ من المالک کان صدقۃ علیک واذا اعطیتہ ایانا تصیر ھدیۃ لنا فعلم ان تبدل الملک یوجب تبدلا فی العین.
سوشل میڈیا پر اللہ تعالیٰ کا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام شئیر نہ کرنے پر کسی کو بددعا دینا
یونیکوڈ 0