کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کسی نے ظہر کے نماز کے لیے تیمم کیا تو یہ شخص اس تیمم سے عصر کی نماز پڑھ سکتا ہے یا عصر کاوقت داخل ہونے پر دوبارہ تیمم کرے گا ؟
واضح رہے کہ علماء احناف کے ہاں تیمم وضو کا خلیفہ اور نائب ہے اور جو حکم اصل کا ہوتا ہے وہی اس کے نائب اور خلیفہ کا بھی ہوتا ہے اسی طرح جن چیزوں سے وضو ٹوٹ جاتا ہے انہیں سے تیمم بھی ٹوٹ جاتا ہے البتہ اتنا فرق ہے کہ اگر تیمم کرنے والے نے تیمم پانی نہ ملنے کی وجہ سے کیا تھا اور اب اسے پانی مل گیا یا کسی بیماری کے بڑھ جانے کے ڈر سے تیمم کیا تھا اور اب تندرست ہوگیا تو ان صورتوں میں اس کا تیمم باطل ہوجائے گا اور اسے از سر نو وضو کرنا پڑگا گا ۔
لہذا پوچھی گئی صورت میں اگر مذکورہ بالا دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت نہ ہو تو ایک ہی تیمم سے جتنی چاہے نمازیں پڑھ سکتا ہے ۔
القرأن الكريم :(المائدة: 5/6 )
﴿فَلَمۡ تَجِدُواْ مَآءٗ فَتَيَمَّمُواْ صَعِيدٗا طَيِّبٗا ﴾
مسند أبي داود :(1/ 390، رقم الحديث:390 ، ط:دارالهجر)
قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا أبا ذر، إن الصعيد الطيب كافيك وإن لم تجد الماء عشر سنين، فإذا وجدت الماء فأمسه جلدك .
الشامية (1/ 256، ط: دارالفكر)
ينقضه (كل ما يمنع وجوده التيمم إذا وجد بعده) ؛ لأن ما جاز بعذر بطل بزواله، فلو تيمم لمرض بطل ببرئه أو لبرد بطل بزواله والحاصل أن كل ما يمنع وجوده التيمم نقض وجوده التيمم .
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع:(1/ 56، ط: دار الكتب العلمية )
وأما بيان ما ينقض التيمم فالذي ينقضه نوعان: عام، وخاص أما العام فكل ما ينقض الوضوء من الحدث الحقيقي والحكمي ينقض التيمم، وقد مر بيان ذلك كله في موضعه.
وأما الخاص: وهو ما ينقض التيمم على الخصوص .
البناية شرح الهداية:(1/ 545، ط: دار الكتب العلمية )
(وينقض التيمم كل شيء ينقض الوضوء) ش: النقض عبارة عن خروجه عن حكمه الأصلي، وهو كونه مبيح الصلاة م: (لأنه) ش: أي لأن التيمم م: (خلف عنه) ش: أي عن الوضوء م: (فأخذ حكمه) ش: أي حكم الوضوء في النقض، ولا شك أن الأصل أقوى من الخلف، فما كان ناقضاً للأقوى كان ناقضاً للأضعف بطريق الأولى .
البحر الرائق شرح كنز الدقائق :(1/ 164، ط: دار الكتاب الإسلامي )
وصح قبل الوقت ولفرضين) أي صح التيمم قبل الوقت ولفرضين .