ہاتھ پر الفی لگ گئی، کچھ حصہ چمڑے سمیت ہٹ گیا اور کچھ باقی رہ کیا ۔ کیا وضو ہو جائے گا یا اس کا ہٹانا ضروری ہے ؟
الفی اگر ہاتھ پر لگی ہو تو وضو سے پہلے اسے اتارنا ضروری ہے ، کیونکہ وہ پانی کے پہنچنے میں رکاوٹ بنتی ہے، البتہ اگر پوری کوشش کے با وجود مکمل نہ ہٹے اور زیادہ رگڑنے سے جلد کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو جتنا ممکن ہو اتار لینا کافی ہے، اس صورت میں وضو ہو جائے گا ۔
البحر الرائق:(14/1،ط: دارالکتاب الاسلامی)*
ولو لصق باصل ظفره طين يابس وبقى قدر راس ابرة من موضع الغسل لم يجز .
*الهندية:(4/1،ط: دارالفکر)*
في فتاوى ما وراء النهران بقى من موضع الوضوء قدر رأس ابرة او نزق باصل ظفرة طين يا بس او رطب لم يجز .
*ايضا:(4/1،ط: دارالفکر)*
وفي الجامع الصغير سئل ابو القاسم عن وافر الظفر الذي يبقى في اظفاره الدرن او الذى يعمل عمل الطين او المراة التي صبغت اصبعها بالحناء او الصرام او المصباغ فال كل ذلك سواء يجزيهم وضوءهم اذ لا يستطيع الامتناع عنه الا يجرح والفتوى عليه من غير فصل بين المدني والقروى.