قربانی اور زکوٰۃ کے نصاب میں کیا فرق ہے, نیز قربانی و صدقه فطر کے نصاب کے لئے ضرورت اصلیہ کے علاوہ یا ضرورت سے زائد سامان کو بھی نصاب میں میں شامل کرنے کی کیا تفصیل ہے؟ ارشاد فرمادیں ؟
واضح رہے کہ قربانی اور زکوٰۃ میں بنیادی فرق یہ ہے کہ زکوٰۃ صرف مالِ نامی (سونا، چاندی، نقدی،مویشی اور مالِ تجارت) پر فرض ہوتی ہے اور قمری مہینوں کے اعتبار سے سال گزرنا بھی شرط ہے، جبکہ قربانی اور صدقہ فطر میں ضرورت سے زائد سامان ہونا ضروری ہے،جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر یا اس سے زائد ہو، خواہ وہ مال نقدی، سونا، چاندی یا مالِ تجارت کی صورت میں نہ ہو، اسی طرح اس کے وجوب کے لیے مال کے اوپر سال گزرنا بھی شرط نہیں ہے۔
*الشامية:(312/6،ط: دارالفكر)*
واليسار الذي يتعلق به) وجوب (صدقة الفطر) كما مر (لا الذكورة فتجب على الأنثى)
(قوله واليسار إلخ) بأن ملك مائتي درهم أو عرضا يساويها غير مسكنه وثياب اللبس أو متاع يحتاجه إلى أن يذبح الأضحية ولو له عقار يستغله فقيل تلزم لو قيمته نصابا، وقيل لو يدخل منه قوت سنة تلزم، وقيل قوت شهر، فمتى فضل نصاب تلزمه. ولو العقار وقفا،
*الهندية:(191/1،ط: دارالفكر)*
وهي واجبة على الحر المسلم المالك لمقدار النصاب فاضلا عن حوائجه الأصلية كذا في الاختيار شرح المختار، ولا يعتبر فيه وصف النماء ويتعلق بهذا النصاب وجوب الأضحية.
*العناية شرح الهداية:(153/2،ط: دارالفكر)*
قال (الزكاة واجبة على الحر) أي فريضة لازمة بالكتاب....والمراد بالواجب الفرض لأنه لا شبهة فيه، واشتراط الحرية لأن كمال الملك بها، والعقل والبلوغ لما نذكره، والإسلام لأن الزكاة عبادة ولا تتحقق من الكافر، ولا بد من ملك مقدار النصاب.