السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
سوال :میرے پاس ساڑھے سات تولہ سونا نہیں ہے لیکن میرے پاس ایک تولہ اور تین سے چار ماشے سونا موجود ہے میرے نوٹس میں حال ہی میں یہ بات ائی ہے کہ اگر کسی کے پاس 52 تولے چاندی جتنی مالیت کا سونا موجود ہو وہ صاحب نصاب ہے اس پر زکوۃ فرض ہے اب 52 تولے چاندی کی جو مالیت ہے وہ تقریبا تین ساڑھے تین لاکھ بنتی ہے اور میرے پاس جو یہ سونا موجود ہے اس کی مالیت چھ لاکھ سے زیادہ بن رہی ہے تو میرا سوال یہ ہے کہ کیا میرے اوپر زکوۃ فرض ہوگی؟
جس بات کی وجہ سےمیں کنفیوژن کا شکار ہوں وہ یہ ہے کہ سونے اور چاندی کا تو بالکل الگ الگ نصاب ہے تو اگر یہی بات ہونی تھی کہ 52 تولے چاندی والی بات ہونی تھی تو پھر الگ الگ نصاب نہ لکھا جاتا بہرحال اپ میری رہنمائی فرمائیں کہ کیا میں صاحب نصاب ہوں ؟اور مجھے اپنے سابقہ سالوں کا بھی جب میرے پاس یہ سونا اتنی مالیت کا ایا سب کا حساب لگا کر زکوۃ ادا کرنی چاہیے؟ یا میں صاحب نصاب نہیں ہوں؟
الجواب باسم ملہم الصواب
اگر کسی شخص کی ملکیت میں صرف سونا ہو اور اس کے ساتھ چاندی، مالِ تجارت اور نہ ہی نقد رقم ہو تو اس صورت میں سونے کا نصاب ساڑھے سات تولہ (یعنی تقریباً 87.48 گرام) ہوگا،لیکن اگر سونے کے ساتھ چاندی یا مالِ تجارت یا نقد رقم میں سے کوئی ایک یا زیادہ چیزیں موجود ہوں تو پھر مجموعی مالیت کو دیکھا جائے گا، ایسی صورت میں ساڑھے باون تولہ چاندی (یعنی تقریباً 612.36 گرام) کی موجودہ قیمت کے برابر نصاب شمار کیا جائے گا۔
لہٰذا پوچھی گئی صورت میں اگر آپ کے پاس ایک تولہ اور تین سے چار ماشے کے قریب سونا موجود ہے اور اس کے ساتھ چاندی یا مالِ تجارت یا نقد رقم میں سے کوئی ایک چیز بھی موجود ہے اور ان سب کی مجموعی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کو پہنچ رہی ہے تو آپ صاحبِ نصاب شمار ہوں گے اور جتنے سالوں میں آپ کے پاس یہ نصاب موجود رہا، ان تمام سالوں کی زکوٰۃ آپ پر واجب ہوگی اور اگر سونے کے ساتھ ان تینوں میں سے کوئی بھی چیز موجود نہ ہو تو آپ صاحبِ نصاب نہیں ہیں اور آپ پر زکوٰۃ لازم نہیں۔
دلائل:
بدائع الصنائع:(18/2،ط:دارالكتب العلمية)
فأما إذا كان له ذهب مفرد فلا شيء فيه حتى يبلغ عشرين مثقالا فإذا بلغ عشرين مثقالا ففيه نصف مثقال؛ لما روي في حديث عمرو بن حزم «والذهب ما لم يبلغ قيمته مائتي درهم فلا صدقة فيه فإذا بلغ قيمته مائتي درهم ففيه ربع العشر» وكان الدينار على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم مقوما بعشرة دراهم.وروي عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال لعلي: «ليس عليك في الذهب زكاة ما لم يبلغ عشرين مثقالا فإذا بلغ عشرين مثقالا ففيه نصف مثقال».
البحرالرائق:(2/247،ط: دار الكتاب الإسلامي)
(قوله: وتضم قيمة العروض إلى الثمنين والذهب إلى الفضة قيمة) أما الأول فلأن الوجوب في الكل باعتبار التجارة، وإن افترقت جهة الإعداد، وأما الثاني فللمجانسة من حيث الثمنية، ومن هذا الوجه صار سببا، وضم إحدى النقدين إلى الآخر قيمة مذهب الإمام وعندهما الضم بالأجزاء، وهو رواية عنه حتى إن من كان له مائة درهم وخمسة مثاقيل ذهب تبلغ قيمتها مائة درهم فعليه الزكاة عنده خلافا لهما هما يقولان المعتبر فيهما القدر دون القيمة حتى لا تجب الزكاة في مصوغ وزنه أقل من مائتين، وقيمته فوقهما، وهو يقول الضم للمجانسة، وهي تتحقق باعتبار القيمة دون الصورة فيضم بها،وفي المحيط لو كان له مائة درهم وعشرة دنانير قيمتها أقل من مائة تجب الزكاة عندهما واختلفوا على قوله والصحيح الوجوب لأنه إن لم يمكن تكميل نصاب الدراهم باعتبار قيمة الدنانير أمكن تكميل نصاب الدنانير باعتبار قيمة الدراهم؛ لأن قيمتها تبلغ عشرة دنانير فتكمل احتياطا لإيجاب الزكاة اهـ.
الهندية:(179/1،ط:دارالفكر)
وتضم قيمة العروض إلى الثمنين والذهب إلى الفضة قيمة كذا في الكنز. حتى لو ملك مائة درهم خمسة دنانير قيمتها مائة درهم تجب الزكاة عنده خلافا لهما، ولو ملك مائة درهم وعشرة دنانير أو مائة وخمسين درهما وخمسة دنانير أو خمسة عشر دينارا أو خمسين درهما تضم إجماعا كذا في الكافي. ولو كان له مائة درهم وعشر دنانير قيمتها أقل من مائة درهم تجب الزكاة عندهما وعند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - اختلفوا فيه والصحيح أنه تجب كذا في محيط السرخسي.
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ دارالعلوم حنفیہ،کراچی