مفتی صاحب !
اشراق اور چاشت کی نماز میں کیا فرق ہے دونوں کے وقت کون سے ہیں؟ اور کتنی رکعتیں ہیں ؟فضیلت بھی بتادیں ۔
واضح رہے کہ اشراق اور چاشت دونوں الگ الگ نمازیں ہیں،ہر ایک کا ثبوت اور فضیلت احادیث میں ہے،البتہ اشراق کی نماز کے لیے حدیث میں مستقل نام ذکر نہیں کیا گیا، جب کہ چاشت کے لیے’’ صلاۃ الضحیٰ‘‘ کا نام موجود ہے۔
ان دونوں نماز وں کا وقت سورج طلوع ہونے کے تقریباً بارہ منٹ بعد سے لے کر زوالِ آفتاب (استواء شمس) تک ہوتا ہے، البتہ اشراق کا اول وقت میں پڑھنا افضل ہے۔
چاشت کی نماز افضل وقت میں ادا کرنے کے لیے بہتر ہے کہ وقت کا چوتھائی حصہ گزر جائے۔ مثال کے طور پر اگر اشراق سے زوال تک کا کل وقت چھ گھنٹے ہو تو اس میں سے ابتدائی ڈیڑھ گھنٹہ چوتھائی وقت شمار ہوگا اور اس کے بعد چاشت کا افضل وقت شروع ہوگا۔
اشراق کی نماز کم از کم دو رکعت اور زیادہ سے زیادہ چار رکعت تک پڑھی جا سکتی ہے۔
چاشت کی نماز کم از کم دو رکعت اور زیادہ سے زیادہ بارہ رکعت تک ہے، البتہ آٹھ رکعتیں افضل ہیں۔
اشراق کی فضیلت
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جو شخص فجر کی نماز جماعت سے ادا کرے، پھر وہیں بیٹھ کر اللہ کا ذکر کرتا رہے، یہاں تک کہ سورج طلوع ہو جائے اور اس کے بعد دو رکعت (اشراق کی) نماز پڑھے تو اسے حج و عمرہ کا ثواب ملے گا۔‘‘(راوی فرماتے ہیں:) حضور ﷺ نے فرمایا: ’’پورا، پورا، پورا‘‘ یعنی مکمل اجر۔
ایک اور حدیث میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جس نے اشراق کی نماز کی پابندی کی، اس کے گناہ بخش دیے جائیں گے، چاہے وہ سمندر کی جھاگ کے برابر کیوں نہ ہوں۔‘‘
چاشت کی فضیلت
حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ابن آدم کے ہر جوڑ پر صبح ہوتے ہی (بطور شکرانے کے) ایک صدقہ ہوتا ہے، اب اگر وہ کسی ملنے والے کو سلام کرے تو یہ ایک صدقہ ہے، کسی کو بھلائی کا حکم دے تو یہ بھی صدقہ ہے، برائی سے روکے یہ بھی صدقہ ہے، راستے سے کسی تکلیف دہ چیز کو ہٹا دے تو یہ بھی صدقہ ہے، اپنی بیوی سے صحبت کرے تو یہ بھی صدقہ ہے، البتہ ان سب کے بجائے اگر دو رکعت نماز چاشت کے وقت پڑھ لے تو یہ ان سب کی طرف سے کافی ہے۔‘‘
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جنت میں ایک دروازہ ہے جسے ’’دروازۂ چاشت‘‘ کہا جاتا ہے۔ جب قیامت کا دن ہوگا، ایک پکارنے والا پکارے گا: کہاں ہیں وہ لوگ جو چاشت کی نماز پڑھا کرتے تھے؟ یہ تمہارا دروازہ ہے، اللہ کی رحمت سے تم اس میں داخل ہو جاؤ۔‘‘
*سنن الترمذی:(رقم الحدیث586،ط:دارالغرب الاسلامی)*
عن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من صلى الغداة في جماعة ثم قعد يذكر الله حتى تطلع الشمس، ثم صلى ركعتين كانت له كأجر حجة وعمرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: تامة تامة تامة.
*أیضاً:(رقم الحدیث486،ط:دارالغرب الاسلامی)*
عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من حافظ على شفعة الضحى غفر له ذنوبه وإن كانت مثل زبد البحر.
*سنن أبي داود: (2/ 460 ، رقم الحدیث:1285،ط: دار الرسالة العالمية)*
عن أبي ذر، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "يصبح على كل سلامى من ابن آدم صدقة: تسليمه على من لقي صدقة، وأمره بالمعروف صدقة، ونهيه عن المنكر صدقة، وإماطته الأذى عن الطريق صدقة، وبضعة أهله صدقة، ويجزئ من ذلك كله ركعتان من الضحى".
*المعجم الأوسط للطبراني:(5/ 195،رقم الحدیث5060،ط:دارالحرمین)*
عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: إن في الجنة بابا يقال له: الضحى، فإذا كان يوم القيامة نادى مناد: أين الذين كانوا يديمون على صلاة الضحى؟ هذا بابكم فادخلوه برحمة الله.
*مرقاۃ المفاتیح:(977/3،ط:دارالفکر)*
قال الطيبي: المراد وقت الضحى، وهو صدر النهار حين ترتفع الشمس وتلقي شعاعها اهـ. قيل: التقدير صلاة وقت الضحى، والظاهر أن إضافة الصلاة إلى الضحى بمعنى " في " كصلاة الليل وصلاة النهار، فلا حاجة إلى القول بحذف المضاف، وقيل: من باب إضافة المسبب إلى السبب كصلاة الظهر، وقال ميرك: الضحوة بفتح المعجمة وسكون المهملة ارتفاع النهار، والضحى بالضم والقصر شروقه، وبه سمي صلاة الضحى، والضحاء بالفتح والمد هو إذا علت الشمس إلى زيغ الشمس فما بعده، وقيل: وقت الضحى عند مضي ربع اليوم إلى قبيل الزوال، وقيل: هذا وقته المتعارف، وأما وقته فوقت صلاة الإشراق، وقيل: الإشراق أول الضحى.
*الدرالمختار:(22/2،ط:دارالفکر)*
(و) ندب (أربع فصاعدا في الضحى) على الصحيح من بعد الطلوع إلى الزوال ووقتها المختار بعد ربع النهار.
*الشامية:(23/2،ط:دارالفکر )*
وفي المنية: أقلها ركعتان وأكثرها اثني عشر، وأوسطها ثمان وهو أفضلها كما في الذخائر الأشرفية، لثبوته بفعله وقوله - عليه الصلاة والسلام-. وأما أكثرها فبقوله فقط، وهذا لو صلى الأكثر بسلام واحد؛ أما لو فصل فكل ما زاد أفضل كما أفاده ابن حجر في شرح البخاري.