شوہر اپنی بیوی کو جماعت کرواسکتا ہے ؟ اگر کروا سکتا ہے تو اذان اور اقامت کا کیا حکم ہوگا؟
جزاک اللہ خیرا کثیرا
واضح رہے کہ بلا عذر مسجد کی جماعت چھوڑنا مکروہ ہے، تاہم اگر کسی وجہ سے جماعت فوت ہوجائے اور قریبی مساجد میں بھی نماز باجماعت ادا ہوچکی ہو تو گھر میں شوہر اپنی بیوی کے ساتھ جماعت کے ساتھ نماز پڑھ سکتا ہے اور یہ جائز ہے۔جس کا طریقہ یہ ہے کہ شوہر بیوی کو اپنے برابر میں کھڑا نہ کرے، بلکہ شوہر کے قدم سے بیوی کاقدم پیچھے ہونے چاہییں اور پچھلی صف میں بھی کھڑی ہوسکتی ہے۔
اسی طرح اگر گھر میں اذان کی آواز آرہی ہو تو گھر میں جماعت کے وقت دوبارہ اذان اور اقامت ضروری نہیں، البتہ افضل طریقہ یہ ہے کہ گھر میں بھی اذان اور اقامت دونوں یا کم از کم اقامت کے ساتھ ہی جماعت کروائی جائے، اقامت شوہر خود کہے، کیونکہ اذان و اقامت مردوں کے لیے سنت اور عورتوں کے لیے مکروہ ہیں۔
*الهندية: (1/ 53،ط:دارالفكر)*
الأذان سنة لأداء المكتوبات بالجماعة. كذا في فتاوى قاضي خان وقيل: إنه واجب والصحيح أنه سنة مؤكدة. كذا في الكافي وعليه عامة المشايخ... وليس على النساء أذان ولا إقامة .
*الشامية:(1/ 394،ط:دارالفكر)*
(وكره تركهما) معا (لمسافر) ولو منفردا (وكذا تركها) لا تركه لحضور الرفقة (بخلاف مصل) ولو بجماعة (وفي بيته بمصر) أو قرية لها مسجد؛ فلا يكره تركهما إذ أذان الحي يكفيه.......لما روى عبد الرحمن بن أبي بكر عن أبيه «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج من بيته ليصلح بين الأنصار فرجع وقد صلى في المسجد بجماعة، فدخل رسول الله صلى الله عليه وسلم في منزل بعض أهله فجمع أهله فصلى بهم جماعة.
*أيضاً:(1/ 572)*
المرأة إذا صلت مع زوجها في البيت، إن كان قدمها بحذاء قدم الزوج لا تجوز صلاتهما بالجماعة، وإن كان قدماها خلف قدم الزوج إلا أنها طويلة تقع رأس المرأة في السجود قبل رأس الزوج جازت صلاتهما لأن العبرة للقدم.