السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
عرض یہ کہ میں کسی شخص کو 5 لاکھ روپے دیتا ہوں کاروبار کیلئے، جس کو میں نے پیسے دیے ہیں، اس کا کروڑوں کا بزنس ہے، وہ شخص میرے 5 لاکھ کے بدلے مہینے کے 50 ہزار روپے دیتا ہے، مجھ سے روپے لینے سے پہلے وہ کاروباری شخص مجھ کہتا ہے، آپ کے 5 لاکھ روپے میں منافع آپ کو 50 ہزار روپے ہر مہینے ملیں گے، آیا یہ روپے حق حلال ہیں یا پھر سود کی شکل ہے؟ علما کرام روشنی ڈالیں۔
واضح رہے کہ ایک شخص کے سرمایہ اور دوسرے کی محنت سے چلنے والا کاروبار عقدِ مضاربت کہلاتا ہے، مضاربت میں نفع کی تقسیم، مضارِب (کام کرنے والا) اور ربُّ المال (سرمایہ کا مالک) کے مابین فیصد یا تناسب کے اعتبار سے طے کرنا ضروری ہے۔
چنانچہ اگر مضاربت میں فیصد یا تناسب کے بجائے کسی ایک کے لیے متعین رقم طے کی جائے تو اس سے عقد مضاربت فاسد ہو جاتا ہے۔
پوچھی گئی صورت میں چونکہ سرمایہ کے مالک کے لیے پچاس ہزار روپے ماہانہ طے کیے گئے ہیں، جو ایک متعین مقدار ہے، اس لیے یہ طریقہ درست نہیں اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی سود کے مشابہ ہے، لہٰذا اس کو ختم کرنا لازم ہے۔
درست طریقہ یہ ہے کہ منافع فیصد کے اعتبار سے طے کیا جائے، مثلاً: کل نفع کا 40٪ سرمایہ والے کو اور 60٪ کاروباری کو ملے گا، منافع فیصد کے اعتبار سے طے کرنے کے بعد اگر رب المال (سرمایہ کار) کو ماہانہ پچاس ہزار دے دیے جائیں اور سال کے آخر میں اس کا طے شدہ فیصد کے لحاظ سے حساب کر دیا جائے تو یہ صورت جائز ہو جائے گی۔
*الهندية:(4/ 285،ط:دارالفکر)*
فهي عبارة عن عقد على الشركة في الربح بمال من أحد الجانبين والعمل من الجانب الآخر حتى لو شرط الربح كله لرب المال كان بضاعة ولو شرط كله للمضارب كان قرضا هكذا في الكافي. فلو قبض المضارب المال على هذا الشرط فربح أو وضع أو هلك المال بعد ما قبضه المضارب قبل أن يعمل به كان الربح للمضارب والوضيعة والهالك عليها كذا في المحيط.
(وأما) (ركنها) فالإيجاب والقبول وذلك بألفاظ تدل عليها من لفظ المضاربة والمقارضة والمعاملة وما يؤدي معاني هذه الألفاظ بأن يقول رب المال خذ هذا المال مضاربة على أن ما رزق الله أو أطعم الله تعالى منه من ربح فهو بيننا على كذا من نصف أو ربع أو ثلث أو غير ذلك من الأجزاء المعلومة وكذا إذا قال مقارضة أو معاملة ويقول المضارب أخذت أو رضيت أو قبلت أو نحو ذلك يتم الركن بينهما هكذا في البدائع.
ولو قال خذ هذا الألف فاعمل بالنصف أو بالثلث أو بالعشر أو قال خذ هذا الألف وابتع به متاعا فما كان من فضل فلك النصف ولم يزد على هذا شيئا أو قال خذ هذا المال على النصف أو بالنصف ولم يزد على هذا جازت استحسانا ولو قال اعمل به على أن ما رزق الله تعالى أو ما كان من فضل فهو بيننا جازت المضاربة قياسا واستحسانا هكذا في المحيط.
*مختصر القدوري:(ص113،ط:دار الكتب العلمية)*
ومن شرطها: أن يكون الربح بينهما مشاعا لا يستحق أحدهما منه دراهم مسماة ولا بد أن يكون المال مسلما إلى المضارب ولا بد لرب المال فيه.