السلام علیکم ورحمۃ اللہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید کا کہنا ہے کہ داڑھی سنت مستحبہ ہے یک مشت رکھنا واجب نہیں اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے ثابت ہے بلکہ یہ تو محض صحابہ کا فعل ہے جس سے وجوب کا ثبوت نہیں ۔۔
اگر واجب ہوتی تو یک مشت سے کم رکھنے کے بارے میں کوئی وعید آتی جبکہ کہیں بھی وعید نہیں
نیز یہاں امر للوجوب بھی نہیں اگر یہاں امر للوجوب ہے تو پھر رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ اعتموا۔۔ عمامہ باندھو تو یہاں بھی عمامہ باندھنا واجب ہونا چاہیے جبکہ ایسا نہیں لہذا یہ واجب نہیں مستحب ہے کیونکہ یہاں امر للوجوب کا کوئی قرینہ بھی نہیں
لہذا اگر کوئی شخص بلکل بھی داڑھی نہ رکھے تو بھی حرج نہیں گنہگار نہ ہوگا اور اس کے پیچھے نماز بلکل درست ہے یہ فقہاء نے اپنی طرف سے بنالیا کہ ایسا شخص فاسق معلن ہے ان کے فہم میں غلطی واقع ہوئی ہے جبکہ زید خود کو حنفی بھی کہلاتا ہے اور یہ بھی کہتا ہے کہ میں فقہ کے ہرہر مسئلہ کا قائل نہیں مجھے جو بات جہاں سے آسان لگے گی اس پر عمل کروں گادین میں آسانی ہے تم آسانیاں پیدا کرو سختیاں نہیں لہذا مذکورہ سوال کے مطابق جواب عنایت فرمائیں کہ ۔۔
1 کیا واقعی داڑھی سنت مستحبہ ہے
2 داڑھی منڈے کے لئے کوئی وعید نہیں اور اس کے پیچھے نماز درست ہے ؟؟
3 کیا فقہاء کے فہم میں اس مسئلہ میں غلطی واقع ہوئی ؟؟؟
4 فقہاء کرام نے اپنی طرف سے مسئلہ گھڑ لیا؟؟
5 صحابہ کے فعل سے وجوب ثابت نہیں ہوسکتا
6 رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے یک مشت داڑھی ثابت نہیں ؟؟
شرعی دلائل کی روشنی میں شرعی فتویٰ عنایت فرماکر عند اللہ ماجور ہوں
الجواب باسم ملہم الصواب
داڑھی کی مقدار ایک مشت ہے اور یہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ثابت ہے،آپ صلی اللّہ علیہ وسلم نے بہت تاکید سے داڑھی بڑھانے کا حکم دیا ہے،نیز صحابہ کرام کے بارے میں کثرت سے روایات ہیں کہ وہ ایک مشت سے اضافی داڑھی کے بال کٹوا دیا کرتے تھے،لیکن ایک مشت سے کم کرنا کسی روایت میں موجود نہیں،اس سے ثابت ہوا کہ ایک مشت داڑھی رکھنا واجب ہے۔
چنانچہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مشرکین کی مخالفت کرو، مونچھیں باریک کرو اور داڑھی بڑھاؤ۔ حضرت ابن عمر جب حج یا عمرہ کرتے تو اپنی داڑھی کو مٹھی میں پکڑتے اور جو اضافی ہوتی اس کو کاٹ دیتے۔‘‘ (الصحيح البخاری،رقم: 5553،ط:دار ابن کثير)
حضرت عبد ﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں ہےکہ: ’’وہ اپنی داڑھی مبارک کو مٹھی میں پکڑ کر جو مٹھی سے زائد ہوتی اسے کاٹ دیتے تھے۔‘‘ (أبي داؤد،رقم: 2357، ط:المکتبة العصریة)
مزید معلومات کے لیے درج ذیل کتب کا مطالعہ کریں۔
1: مفتی اعظم پاکستان مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ کا رسالہ "جواہر الفقہ" 7 جلد
2:حکیم الامت تھانوی صاحب کے افادات "ڈاڑھی منڈانا کبیرہ گناہ اور اس کا اس کا مذاق اڑانا کفر ہے۔
3: نیز مولانا حفظ الرحمن اعظمی ندوی صاحب کی " ڈاڑھی کی شرعی حیثیت "
4:مفتی احمد ممتاز صاحب دامت برکاتہم کی "ڈاڑھی اور مونچھوں مع ٹخنے کھلے رکھنے کا حکم"
اس موضوع پر اور بھی بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں،ان کا مطالعہ کریں ۔
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دار الافتاء جامعہ دارالعلوم حنفیہ، کراچی