السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ مفتی صاحب!
رمضان میں دن کے وقت کھلم کھلا بریانی وغیرہ یعنی کھانے کی چیزوں کو بیچنا کیسا ہے؟
اور اس کی آمدنی کے متعلق کیا رائے ہے؟
اگر کسی شخص کے بارے میں ظنِ غالب یا یقین ہو کہ وہ بلا عذر رمضان کا روزہ ترک کر رہا ہے تو رمضان میں دن کے اوقات میں اسے کھانے پینے کی تیار اشیا فروخت کرنا جائز نہیں، کیونکہ یہ گناہ میں تعاون ہے،البتہ مسافر یا شرعی عذر رکھنے والے کو فروخت کرنے کی اجازت ہے، تاہم اگر معذورین یا مسافروں کو بھی کھانے پینے کی تیار اشیا فروخت کرنا مقصود ہو تو سر عام (کھلم کھلا) خرید و فروخت کرنا نا مناسب اور رمضان المبارک کے احترام کے خلاف ہے۔
نیز اگرچہ اس آمدنی کو صریحاً حرام نہیں کہا جائے گا، لیکن گناہ پر تعاون کی وجہ سے اس میں کراہت ضرور ہے، لہذا اس عمل سے بچنا ضروری ہے۔
القران الکریم:(المائدة: 2:5)
وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاونُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَاب.
*الدرالمختار: (2/ 413،ط:دارالفکر)*
ولو أكل عمدا شهرة بلا عذر يقتل، وتمامه في شرح الوهبانية.
*مجمع الانهر في ملتقى البحر:(548/2، ط: دار احیاء التراث العربی)*
(ويجوز بيع العصير) أي عصير العنب (ممن) يعلم أنه (يتخذه خمرا)؛ لأن المعصية لا تقوم بنفس العصير بل بعد تغيره فصار عند العقد كسائر الأشربة من عمل ونحوه بخلاف بيع السلاح من أهل الفتنة لأن المعصية تقوم بعينه.