محترم مفتی صاحب!
مہربانی فرما کر ارشاد فرمائیں کہ زکوٰۃ پورا سال مکمل ہونے پر فرض ہوتی ہے، اگر کوئی شخص 13 یا 14 ماہ گزرنے کے بعد زکوٰۃ ادا کرے تو اس پر کیا حکم ہوگا؟
واضح رہے کہ زکوٰۃ ایک اہم فریضہ ہے، جو سال مکمل ہونے کے بعد واجب ہوتی ہے، لہذا سال مکمل ہونے پر زکوٰۃ کا حساب کر کے جلد از جلد ادا کرنی چاہیے ۔
زکوٰۃ یک مشت ادا کرنا ضروری نہیں، بلکہ قسطوں میں دینا بھی جائز ہے، بشرطیکہ تاخیر بلاعذر نہ ہو، بلاعذر تاخیر کرنا مکروہ ہے اور اگر سال یا اس سے زیادہ وقت گزر جائے تو گناہ ہے، البتہ اگر کوئی عذرہو تو تاخیر کی گنجائش موجود ہے، تاہم جیسے ہی عذر ختم ہو، فوراً زکوٰۃ ادا کرنا ضروری ہے، لہذا بیان کی گئی صورت میں مذکور شخص کی زکوٰۃ ادا ہو گئی۔
*الدر المختار:(128/1،ط: دارالفكر)*
(وافتراضها عمري) أي على التراخي، وصححه الباقاني وغيره (وقيل فوري) أي واجب على الفور (وعليه الفتوى)
كما في شرح الوهبانية (فيأثم بتأخيرها) بلا عذر (وترد شهادته) لان الامر بالصرف إلى الفقير معه قرينة الفور، وهي أنه لدفع حاجته وهي معجلة، فمتى لم تجب على الفور لم يحصل المقصود من الايجاب على وجه التمام.
*الشامية:(271/2،ط: دارالفكر)*
(قوله وافتراضها عمري) قال في البدائع وعليه عامة المشايخ، ففي أي وقت أدى يكون مؤديا للواجب، ويتعين ذلك الوقت للوجوب، وإذا لم يؤد إلى آخر عمره يتضيق عليه الوجوب، حتى لو لم يؤد حتى مات يأثم واستدل الجصاص له بمن عليه الزكاة إذا هلك نصابه بعد تمام الحول والتمكن من الأداء أنه لا يضمن، ولو كانت على الفور يضمن كمن أخر صوم شهر رمضان عن وقته فإن عليه القضاء.
(قوله فيأثم بتأخيرها إلخ) ظاهره الإثم بالتأخير ولو قل كيوم أو يومين لأنهم فسروا الفور بأول أوقات الإمكان. وقد يقال المراد أن لا يؤخر إلى العام القابل لما في البدائع عن المنتقى بالنون إذا لم يؤد حتى مضى حولان فقد أساء وأثم اهـ فتأمل.