افضل بھائی کی ملکیت کی دکان اور سامان ہے، وہیں بریانی کا کاروبار بھی کرتے ہیں۔ نعمت اللہ بھائی چاہتے ہیں کہ دکان بمع سامان ماہانہ 60,000 روپے کرایہ پر لے کر اپنا کاروبار کریں، یہ معاملہ دونوں کی رضامندی سے طے ہوا ہے۔
کیا یہ جائز ہے یا نہیں؟
واضح رہے کہ شریعت میں اپنی چیز کسی اور کو کرایہ پر دینا جائز ہے، خواہ وہ منقولی ہو جیسے کوئی سامان وغیرہ یا غیر منقولی جیسے مکان،دکان، لہٰذا پوچھی گئی صورت میں دکان اور سامان کو ایک مقررہ رقم (مثلاً 60,000 روپے ماہانہ) پر کرایہ پر دیا گیا ہے اور یہ کرایہ کاروبار کے نفع و نقصان کے ساتھ مشروط نہ ہو تو یہ خالص اجارہ ہے،لہذا یہ معاملہ شرعاً جائز ہے۔
*درر الحكام شرح غرر الأحكام:(225/2،ط:دار إحياء الكتب العربية)*
وشرعا (تمليك نفع بعوض)، وإنما عدل عن قولهم تمليك نفع معلوم بعوض كذلك؛ لأنه إن كان تعريفا للإجارة الصحيحة لم يكن مانعا لتناوله الفاسدة.
*الهندية:(409/4،ط: دارالفكر)*
(أما تفسيرها شرعا) فهي عقد على المنافع بعوض، كذا في الهداية...ولو قال: آجرتك منفعة هذه الدار شهرا بكذا يجوز على الأصح، كذا في خزانة المفتين.
*فتح باب العناية بشرح «النُّقاية»:(427/2:دار الأرقم بن أبي الأرقم)*
(وصح استئجار دار أو دكان) أو حانوت (بلا ذكر ما يعمل) المستأجر (فيه) والقياس أن لا يصح، لأن المقصود من الدار والدكان الانتفاع، وهو قد يكون بالسكنى وقد يكون بوضع الأمتعة.