السلام علیکم مفتی صاحب!
ایک عورت کا شوہر اپنے بچوں کے لیے کچھ چیزیں لاتا ہے اور ماں کو دے دیتا ہے کہ تقسیم کر دو اور ماں تقسیم کر کے بچا کر رکھ دے اور بیوی اس رکھی ہوئی چیز سے بغیر پوچھے لے لے تو کیا وہ چیز چوری ہو گی، جبکہ لایا تو اس کا شوہر بچوں کے لیے ہے اور ماں گھر میں منع کر دیتی ہے کہ کسی نے بھی نہیں لینی۔
واضح رہے کہ جن چیزوں کے عرفاً استعمال کرنے کا عام طور پر اختیار ہوتا ہے، وہی چیزیں عورت بغیر اجازت کے استعمال کرسکتی ہے اور اگر گھر کے سربراہ کی مملوکہ کسی چیز سے متعلق کوئی خاص پابندی ہو تو اس صورت میں اس کی اجازت لینا ضروری ہے، کیوں کہ شوہر اپنی تمام چیزوں کا تنِ تنہا مالک ہے، لہذا پوچھی گئی صورت میں اگر شوہر کی طرف سے بچوں کے لیے لائی ہوئی چیزوں کو استعمال کرنے کی عرفا یا صراحتاً بیوی کے لیے اجازت ہو تو اس صورت میں شوہر کی ماں کی اجازت کے بغیر ان کا استعمال جائز ہے، یہ سرقہ(چوری) میں داخل نہیں ہے اور اگر شوہر کی طرف سے اجازت نہ ہو تو اس صورت میں بغیر اجازت کے استعمال کرنا جائز نہیں اور اگر استعمال کیا تو یہ سرقہ(چوری) میں شامل ہوگا ۔
*مرقاة المفاتيح:(1357/4،ط:دارالفكر)*
عن عائشة قالت: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: " إذا أنفقت المرأة من طعام بيتها غير مفسدة كان أجرها بما أنفقت، ولزوجها أجره بما كسب، وللخازن مثل ذلك، لا ينقص بعضهم أجر بعض شيئا ". متفق عليه.
وهذا محمول على إذن الزوج لها بذلك صريحا أو دلالة، وقيل: هذا جار على عادة أهل الحجاز، فإن عاداتهم أن يأذنوا لزوجاتهم وخدمهم بأن يضيفوا الأضياف، ويطعموا السائل والمسكين والجيران، فحرض رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أمته على هذه العادة الحسنة، والخصلة المستحسنة.
*عمدة القاري:(292/8،ط: دارالفكر)*
اختلف الناس في تأويل هذا الحديث، فقال بعضهم: هذا على مذهب الناس بالحجاز، وبغيرها من البلدان: إن رب البيت قد يأذن لأهله وعياله وللخادم في الإنفاق بما يكون في البيت من طعام أو أدام، ويطلق أمرهم فيه إذا حضره السائل ونزل الضيف، وحضهم رسول الله صلى الله عليه وسلم على لزوم هذه العادة ووعدهم الثواب عليه، وقيل: هذا في اليسير الذي لا يؤثر نقصانه ولا يظهر، وقيل: هذا إذا علم منه أنه لا يكره العطاء فيعطي ما لم يجحف، وهذا معنى قوله: غير مفسدة، وفرق بعضهم بين الزوجة والخادم: بأن الزوجة لها حق في مال الزوج ولها النظر في بيتها، فجاز لها أن تتصدق بما لا يكون إسرافا، لكن بمقدار العادة، وما يعلم أنه لا يؤلم زوجها. فأما الخادم فليس له تصرف في متاع مولاه ولا حكم، فيشترط الإذن في عطية الخادم دون الزوجة.
*الشامية:(200/6،ط:دارالفكر)*
لا يجوز التصرف في مال غيره بلا إذنه ولايته.