السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
مسئلہ یہ عرض کرنا ہے ہمارے ایک ساتھی ہیں، وہ کسی اہل حدیث کی مسجد میں نماز مغرب ادا کرنے کی نیت سے جماعت میں شامل ہوئے، لیکن امام نے تین کی جگہ چار رکعت پڑھا دیں، حالانکہ مغرب کی نماز کا وقت ہے، پوچھنے پر معلوم ہوا کہ وہ کہہ رہے تھے حدیث میں آیا ہے کہ جب بارش وغیرہ ہو تو عشاء کی نماز جلدی پڑھ سکتے ہیں، سوال یہ ہے کہ ایسی حدیث موجود ہے اور اس کا صحیح مطلب کیا ہے؟
واضح رہے کہ سفر ہو یا حضر، کسی بھی حالت میں دو نمازوں کو ایک وقت میں جمع کرنا جائز نہیں، سوائے حج کے ایام میں حاجیوں کے لیے، اگر کوئی شخص نماز اپنے وقت سے پہلے پڑھے تو اس کی نماز سرے سے نہیں ہوگی۔
لہٰذا پوچھی گئی صورت میں چونکہ آپ کے دوست نے غیر مقلدین کی مسجد میں نماز عشا وقت سے پہلے ادا کی، اس لیے وہ نماز ادا نہیں ہوئی، اسے دوبارہ پڑھنا ضروری ہے۔
*سنن الترمذي:(231/1،رقم الحديث:188،ط:دار الغرب الإسلامي)*
حدثنا أبو سلمة يحيى بن خلف البصري، قال: حدثنا المعتمر بن سليمان ، عن أبيه ، عن حنش ، عن عكرمة ، عن ابن عباس، عن النبي ﷺ، قال: «من جمع بين الصلاتين من غير عذر» فقد أتى بابا من أبواب الكبائر.
وحنش هذا هو أبو علي الرحبي، وهو حسين بن قيس وهو ضعيف عند أهل الحديث؛ ضعفه أحمد وغيره. والعمل على هذا عند أهل العلم: أن لا يجمع بين الصلاتين إلا في السفر أو بعرفة.
*مؤطا مالك:(82/2،ط:المكتبة العلمية)*
قال محمد: بلغنا، عن عمر بن الخطاب، أنه «كتب في الآفاق، ينهاهم أن يجمعوا بين الصلاتين، ويخبرهم أن الجمع بين الصلاتين في وقت واحد كبيرة من الكبائر»، أخبرنا بذلك الثقات، عن العلاء بن الحارث، عن مكحول.
*البحر الرائق:(268/1،ط: دارالكتاب الإسلامي )*
ي منع عن الجمع بينهما في وقت واحد بسبب العذر للنصوص القطعية بتعيين الأوقات فلا يجوز تركه إلا بدليل مثله ولرواية الصحيحين قال عبد الله بن مسعود «والذي لا إله غيره ما صلى رسول الله ﷺ صلاة قط إلا لوقتها إلا صلاتين جمع بين الظهر والعصر بعرفة وبين المغرب والعشاء بجمع»، وأما ما روي من الجمع بينهما فمحمول على الجمع فعلا بأن صلى الأولى في آخر وقتها والثانية في أول وقتها.