زکوة کی رقم کے استعمال کے بارے میں یہ سوال ہے کہ اگر کسی خاص ضرورت کے لیے زکات وصول کی گئی ہو تو کیا اسے لازماً اسی مقصد پر خرچ کرنا ضروری ہے یا پھر اسے کسی دوسری دینی یا فلاحی ضرورت میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے؟
مثال کے طور پر، اگر کسی مریض کے علاج یا آپریشن کے لیے اہلِ خیر سے زکات جمع کی گئی تو کیا اس رقم کو صرف اسی علاج پر لگانا لازم ہے، یا پھر بوقتِ ضرورت اسے کسی اور مستحق یا کسی اور جائز مد میں بھی منتقل کیا جا سکتا ہے؟
واضح رہے کہ زکوٰۃ کی رقم جس مقصد کے لیے لی جائے اس رقم کو اسی مقصد میں خرچ کرنا ضروری ہے، کسی اور مصرف میں صرف کرنا جائز نہیں، لہذا پوچھی گئی صورت میں کسی مریض کے علاج کے لیے لی گئی زکوۃ کی رقم اسی مریض کو دی جائے گی، پھر مریض کو اختیار ہے کہ وہ اس رقم کو اپنےعلاج میں لگائے یا کسی اور ضرورت میں لگائے۔
*الشامیة:(2/ 269،ط:دارالفکر)*
وللوكيل أن يدفع لولده الفقير وزوجته لا لنفسه إلا إذا قال: ربها ضعها حيث شئت،»،،،،،،،قوله: لولده الفقير) وإذا كان ولدا صغيرا فلا بد من كونه فقيرا أيضا لأن الصغير يعد غنيا بغنى أبيه أفاده ط عن أبي السعود وهذا حيث لم يأمره بالدفع إلى معين؛ إذ لو خالف ففيه قولان حكاهما في القنية. وذكر في البحر أن القواعد تشهد للقول بأنه لا يضمن لقولهم: لو نذر التصدق على فلان له أن يتصدق على غيره. اهـ.
أقول: وفيه نظر لأن تعيين الزمان والمكان والدرهم والفقير غير معتبر في النذر لأن الداخل تحته ما هو قربة، وهو أصل التصدق دون التعيين فيبطل، وتلزم القربة كما صرحوا به، وهنا الوكيل إنما يستفيد التصرف من الموكل وقد أمره بالدفع إلى فلان فلا يملك الدفع إلى غيره كما لو أوصى لزيد بكذا ليس للوصي الدفع إلى غيره فتأمل.
*البحر الرائق:(2/ 262،ط: دار الكتاب الإسلامي*)
«وفي الظهيرية: رجل دفع زكاة ماله إلى رجل وأمره بالأداء فأعطى الوكيل ولد نفسه الكبير أو الصغير أو امرأته وهم محاويج جاز، ولا يمسك لنفسه شيئا، ولو أن صاحب المال قال له: ضعه حيث شئت له أن يمسك لنفسه.