اگر لڑکی دھوکہ دے کر کسی سے نکاح کرے، حالانکہ وہ پہلے سے کسی کی بیوی ہے تو اگلے آدمی کو بتانا اس آدمی کے لیے جس کو اس کا علم ہو ضروری ہے یا نہیں؟
واضح رہے کہ اگر کوئی عورت پہلے سے شادی شدہ ہو اور وہ دھوکہ دے کر کسی دوسرے شخص سے نکاح کرے تو یہ نکاح باطل ہے، کیونکہ شریعت میں ایک وقت میں دو نکاح جمع نہیں ہوسکتے۔
ایسی صورت میں اگر کسی شخص کو حقیقت کا علم ہے تو اس پر دوسرے آدمی کو حقیقت بتانا ضروری ہے، تاکہ وہ حرام اور ناجائز رشتے میں مبتلا نہ رہے۔
*القرآن الکریم:(المائدۃ:2:5)*
وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ.
*صحیح مسلم:(50/1،رقم الحدیث:78،ط:دار طوق النجاة)*
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة ، حدثنا وكيع ، عن سفيان ، (ح) وحدثنا محمد بن المثنى ، حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة كلاهما، عن قيس بن مسلم ، عن طارق بن شهاب ، وهذا حديث أبي بكر قال: «أول من بدأ بالخطبة يوم العيد قبل الصلاة مروان، فقام إليه رجل، فقال: الصلاة قبل الخطبة، فقال: قد ترك ما هنالك، فقال أبو سعيد : أما هذا فقد قضى ما عليه، سمعت رسول الله ﷺ يقول: من رأى منكم منكرا فليغيره بيده، فإن لم يستطع فبلسانه، فإن لم يستطع فبقلبه، وذلك أضعف الإيمان .»
*مرقاةالمفاتيح:(3166/8،قم الحديث:5062ط:دار الفكر)*
وعن جابر رضي الله عنه قال: قال رسول الله ﷺ: ««المجالس بالأمانة إلا ثلاثة مجالس: سفك دم حرام، أو فرج حرام، أو اقتطاع مال بغيرحق»». رواه أبو داود. وذكر حديث أبي سعيد: «إن أعظم الأمانة في» باب المباشرة «في» الفصل الأول«.