السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
ازراہِ مہربانی اس سوال کا جواب درکار ہے۔اگر اسکولز کے طلبا اپنا کاپیوں کا نا مکمل کام کسی اور سے معاوضہ دے کر کروائیں تو کیا یہ جائز ہے؟نیز یہ رقم کیسی ہے؟
اسکول میں جو کام بچوں کو کرنے کے لیے دیا جاتا ہے، اس سے مقصود بچوں میں قابلیت پیدا کرنا ہوتا ہے، ایک طالب علم کا دوسرے کا کام کرنا خیانت ہے اور اسلام میں خیانت کرنا حرام اور کبیرہ گناہ ہے، نیز ناجائز کام کی اجرت بھی ناجائز ہوتی ہے، لہٰذا دوسرے کی جگہ اس کا اسکول کا کام کرنا اور اس پر اجرت (مزدوری) لینا حرام ہے۔
*تفسیر ابن کثیر:(10/3،ط: دارالکتب)*
"وقوله : {وتعاونوا على البر والتقوى ولاتعاونوا على الإثم والعدوان} يأمر تعالى عباده المؤمنين بالمعاونة على فعل الخيرات، وهو البر، وترك المنكرات وهو التقوى، وينهاهم عن التناصر على الباطل، و التعاون على المآثم والمحارم."
*الموسوعة الفقهية الکویتیة:(290/1،ط:دارالصفوة)*
"وَلاَيَجُوزُ اسْتِئْجَارُ كَاتِبٍ لِيَكْتُبَ لَهُ غِنَاءً وَنَوْحًا؛ لأَِنَّهُ انْتِفَاعٌ بِمُحَرَّمٍ."
*الفقه الاسلامی:(3817/5،ط: دارالفکر)*
"ولایجوز الاستئجار علی المعاصي کاستئجار الإنسان للعب و اللهو المحرم لأنه استئجار علی المعصیة والمعصیة لاتستحق بالعقد."