محترم مفتی صاحب ایک مسئلہ در پیش ہے وہ یہ کہ ایک ایپ ہے جس میں کچھ رقم انویسٹمنٹ کرانی پڑتی ہے اس کے بعد وہ ایپ آپ کو روانہ کچھ ورک دیتا ہے مثلا کسی ایڈ کو دیکھنا یا پھر کسی ایپ کو انسٹال کرنا اور اس پر وہ آپ کو روانہ کے حساب سے منافع دیتے ہیں مثلا 6200 کی انویسمنٹ پر آپ کو روزانہ 200 روپے ملیں گے اور اگر مقررہ وقت میں آپ نے ان کا کام نہیں کیا تو آپ کو کوئی منافع نہیں ملیں گے تاہم معاہدہ کا وقت پورا ہونے پر آپ اپنی رقم واپس لے سکتے ہیں ۔
اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا اس طرح سے منافع حاصل کرنا اور اس طرح کے معاملات میں شریک ہونا از روئے شریعت درست ہے ؟
ایڈ دیکھنے اور ایپ انسٹال کرنے کا کام اجارہ (ملازمت)ہے،جس میں دیکھنے والے کو ایڈ دیکھنے اور ایپ انسٹال کرنے کی اجرت دی جاتی ہے، یہ کوئی ایسی منفعت نہیں جو اصلاً مقصود ہو اور شرعاً اس کی اجرت لی جا سکے،بلکہ یہ کام اکثر دھوکہ دہی کے لیے ہوتا ہے، مثلاً ویب سائٹ، آن لائن اسٹور اور ایپ پر غلط طریقے سے ویورز لا کر یو ٹیوب، گوگل ایڈسینس اور اشتہار دینے والی کمپنیوں کو بھی دھوکہ دیا جاتا ہے،لہذا شرعاً یہ کام کرنا اور اس کی اجرت لینا درست نہیں ہے،نیز یہ ایڈ دیکھنے کے کام کے لیے فیس جمع کروائی جاتی ہے،جو در اصل اجارے (ملازمت) کے حق کو خریدنا ہے، یہ حق مجرد کی بیع ہے،جو کہ رشوت کے زمرے میں آتی ہے۔ یہ جائز نہیں،لہذا اس سے اجتناب لازم ہے۔
سنن الترمذي:(3/ 615،ط:دارالغرب،بيروت)
عن عبد الله بن عمرو قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الراشي والمرتشي»: هذا حديث حسن صحيح.
الشامية: (6/ 4،ط:دارالفكر)
«وشرعا (تمليك نفع) مقصود من العين (بعوض) حتى لو استأجر ثيابا أو أواني ليتجمل بها أو دابة ليجنبها بين يديه أو دارا لا ليسكنها أو عبدا أو دراهم أو غير ذلك لا ليستعمله بل ليظن الناس أنه له فالإجارة فاسدة في الكل، ولا أجر له لأنها منفعة غير مقصودة من العين...قوله مقصود من العين) أي في الشرع ونظر العقلاء، بخلاف ما سيذكره فإنه وإن كان مقصودا للمستأجر لكنه لا نفع فيه وليس من المقاصد الشرعية، وشمل ما يقصد ولو لغيره لما سيأتي عن البحر من جواز استئجار الأرض مقيلا ومراحا، فإن مقصوده الاستئجار للزراعة مثلا، ويذكر ذلك حيلة للزومها إذا لم يمكن زرعها تأمل.
مجلة مجمع الفقه الإسلامي:(5/ 1931 ،ط:الموتمر الاسلامي)
«ومقتضى هذين التعريفين أن المال مقصور على الأعيان المادية، فلا يشمل المنافع والحقوق المجردة، ولذلك صرح الفقهاء الحنفية بعدم جواز بيع المنافع والحقوق المجردة، وقد صرحوا بأن بيع حق التعلي لا يجوز.