السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاته
1. اگر کوئی شخص علانیہ سودی کاروبار میں مشغول ہو، اور اس سودی آمدن سے اپنا مکان یا دکان تعمیر کرے، تو کیا کسی دوسرے مسلمان کے لیے اُس کے مکان میں کرائے پر رہنا شرعاً درست ہے؟
2. اسی طرح، اگر کوئی شخص ماضی میں سودی معاملات میں ملوث رہا ہو، اور اب وہی سودی مال کو بنیاد بنا کر تجارت کر رہا ہو، تو کیا اُس کے بنائے ہوئے مکان میں کرائے پر رہنے میں کوئی شرعی قباحت ہے؟
3. نیز، ایک تیسری صورت: اگر مکان کسی شخص نے اپنی حلال کمائی سے بنایا ہو، لیکن اُس کی وفات کے بعد اُس کا وارث (مثلاً بیٹا) سودی کاروبار اختیار کر لے — تو اب اُس مکان یا دکان میں کرایہ دار بننا کیسا ہے؟ کیا اصل بنیاد (یعنی مکان کی تعمیر) حلال ہو تو بعد کی صورتحال قابلِ نظرانداز ہے یا نہیں؟
آپ کی علمی و شرعی رائے ہمارے لیے مشعلِ راہ ہوگی ۔جزاکم اللہ خیراً و أحسن الجزاءوالسلام مع التقدیر و الاحترام
1) واضح رہے کہ اگر کسی مکان یا دکان کو سودی آمدن سے تعمیر کیا گیا ہو تو اسے کرایہ پر لینا شرعاً جائز ہے، کیونکہ گناہ صرف سود کمانے والے پر ہے، عمارت بذاتِ خود حرام نہیں ہوتی، بشرطیکہ کرایہ دار اس میں جائز کام کرے۔
2) اگر کوئی شخص ماضی میں سودی کاروبار کرتا رہا ہو اور اسی مال سے حلال کاروبار کرکے مکان بنایا ہو تو اس میں رہنا یا کاروبار کرنا بھی جائز ہے،البتہ حرام کمائی کا وبال وگناہ اس پر ہوگا۔
3) اگر مکان حلال کمائی سے بنایا گیا ہو اور بعد میں مالک سودی کاروبار اختیار کر لے تو اس مکان کو کرایہ پر لینا بالکل درست ہے، کیونکہ اس کی بنیاد حلال ہے اور بعد کی آمدن کا اس پر اثر نہیں پڑتا۔
الشامية:(189/6،ط: دارالفكر)
تصرف في المغصوب الوديعة بان باعه وربح فيه اذا كان ذلك متعينا بالاشارة او بالشراء بدراهم الوديعة او الغصب ونقدها يعني يتصدق بربح حصل فيهما اذا كانا مما يتعين بالاشارة وان كانا مما لا يتعين فعلى اربعة اوجه فان اشار اليها ونقدها فكذلك يتصدق وان اشار اليها ونقد غيرها او اشار الى غيرها ونقدها او اطلق ولم يشر ونقدها لا يتصدق في الصور الثلاث عند الكرخي قيل وبه يفتى والمختار انه لا يحل.
أیضاً:(235/5،ط: دارالفكر)
قوله اكتسب حراما إلخ) توضيح المسألة ما في التتارخانية حيث قال: رجل اكتسب مالا من حرام ثم اشترى فهذا على خمسة أوجه: أما إن دفع تلك الدراهم إلى البائع أولا ثم اشترى منه بها أو اشترى قبل الدفع بها ودفعها، أو اشترى قبل الدفع بها ودفع غيرها، أو اشترى مطلقا ودفع تلك الدراهم، أو اشترى بدراهم أخر ودفع تلك الدراهم. قال أبو نصر: يطيب له ولا يجب عليه أن يتصدق إلا في الوجه الأول.
کذا فی فتاوی محمودیہ:(410/18،ط: ادارہ الفاروق)