میرے دوست کا وکیل بننے کا ارادہ ہے، لیکن کسی نے اسے کہا کہ شریعت میں وکالت نام کی کوئی چیز نہیں اور وکیل بننا ناجائز ہے تو میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ شرعًا وکیل بننا درست ہے یا نہیں؟ اگر کوئی شخص وکیل بننا چاہے تو بن سکتا ہے یا نہیں؟
واضح رہےکہ وکالت کو ذریعۂ معاش بنانا فی نفسہ جائز ہے، البتہ وکیل پر لازم ہے کہ کسی باطل مقدمہ کی وکالت نہ کرے اور کسی ناحق شخص کی حمایت نہ کرے۔
جھوٹ، فریب اور رشوت جیسے ناجائز ذرائع سے پرہیز کرے اور اپنی صلاحیت کو حق کے اثبات اور مظلوم کی اعانت میں استعمال کرے۔
اگر ان شرائط کی پابندی کرے تو وکالت کا پیشہ اختیار کرنا درست ہے، بلکہ مظلوموں کی مدد کی نیت ہو تو باعثِ اجر بھی ہوگا۔
*الهندية:(3/ 564،ط:دارالفکر)*
ويجوز التوكيل بالبياعات والأشربة والإجارات والنكاح والطلاق والعتاق والخلع والصلح والإعارة والاستعارة والهبة والصدقة والإيداع وقبض الحقوق والخصومات وتقاضي الديون والرهن والارتهان كذا في الذخيرة.
*وایضا:(3/ 616،ط:دارالفکر)* والوكيل بطلب الشفعة والرد بالعيب والقسمة وكيل بالخصومة بالإجماع كذا في الحاوي. حتى إن الوكيل يأخذ الشفعة وإذا ادعى المشتري أن الموكل سلم الشفعة وأقام البينة على الوكيل بأن الموكل سلمها تقبل وكذا المشتري لو وجد بالمبيع عيبا فوكل رجلا بالرد فقال البائع قد رضي المشتري بالعيب وأنكر الوكيل فأقام البائع البينة على الرضا تقبل وكذا الوكيل باسترجاع الهبة إذا أقام الموهوب له البينة على أن الواهب أخذ عوضا أو على أن الهبة زادت قبلت وكذا الوكيل بالقسمة إذا قال أحد الشريكين وهو الذي لم يوكل إن شريكي قد استوفى نصيبه وأنكر الوكيل فأقام الشريك البينة على الاستيفاء تقبل هكذا في السراج الوهاج.