ہمارے قبائلی علاقوں کے اکثر لوگ حالات کی وجہ سے اپنے آبائی گاؤں چھوڑ کر مختلف شہروں (کراچی، لاہور وغیرہ) میں مستقل سکونت اختیار کر چکے ہیں۔ آبائی گاؤں میں نہ رہائش ہے اور نہ ساز و سامان، صرف زمین یا کھنڈرات باقی ہیں۔ اب اگر کوئی شخص اپنے آبائی گاؤں پندرہ دن سے کم قیام کے ارادے سے جائے تو کیا وہ وہاں مقیم شمار ہوگا یا مسافر نماز میں قصر کرے گا یا پوری پڑھنی ہوگی؟
واضح رہے کہ فقہا نے وطن کی تین قسمیں بیان کی ہیں۔
(1) وطنِ اصلی:جہاں انسان مستقل رہنے کے ارادے سے رہائش اختیار کرے، خواہ وہ آبائی گاؤں ہو یا کوئی دوسرا شہر، یہ وطن اس وقت تک باقی رہتا ہے جب تک وہاں سے مستقل سکونت ختم نہ کی جائے۔
(2)وطنِ اقامت:وہ جگہ جہاں پندرہ دن یا اس سے زیادہ قیام کا ارادہ ہو، یہ وطن عارضی ہوتا ہے۔
(3) وطن سفر: وہ جگہ جہاں پندرہ دن سے کم قیام کا ارادہ ہو۔
لہذا پوچھی گئی صورت میں چونکہ آپ حضرات اپنے آبائی گاؤں کو چھوڑ کر دوسرے شہروں میں مستقل رہائش پذیر ہو گئے ہیں، اس لیے وہ شہر جہاں آپ نے مستقل رہائش اختیار کر لی ہے، آپ کا وطنِ اصلی شمار ہوگا، آبائی گاؤں چونکہ اب آپ کی مستقل رہائش گاہ نہیں رہی، لہٰذا وہ آپ کے لیے وطنِ اصلی باقی نہیں رہا، اس لیے اگر آپ اپنے آبائی گاؤں پندرہ دن سے کم قیام کے ارادے سے جائیں تو وہاں آپ مسافر شمار ہوں گے، لہٰذا چار رکعت والی فرض نمازوں کو دو رکعت پڑھنا لازم ہوگا، اگر پندرہ دن یا زیادہ قیام کا ارادہ کریں تو وہ جگہ آپ کا وطنِ اقامت بن جائے گی اور آپ پر چار رکعت پوری پڑھنا لازم ہوگا۔
*الشامية:(132/2،ط: دارالفكر)*
(قوله الوطن الأصلي) ويسمى بالأهلي ووطن الفطرة والقرار ح عن القهستاني.
(يبطل بمثله) إذا لم يبق له بالأول أهل، فلو بقي لم يبطل بل يتم فيهما (لا غير و) يبطل (وطن الإقامة بمثله و) بالوطن (الأصلي و) بإنشاء (السفر) والأصل أن الشيء يبطل بمثله، وبما فوقه لا بما دونه.
*مراقی الفلاح:(165/1،ط: المكتبة العصرية)*
ويبطل الوطن الأصلي بمثله فقط ويبطل وطن الإقامة بمثله وبالسفر وبالأصلي والوطن الأصلي هو الذي ولد فيه أو تزوج أو لم يتزوج وقصد التعيش لا الارتحال عنه ووطن الإقامة موضع نوى الإقامة فيه نصف شهر فما فوقه ولم يعتبر المحققون وطن السكنى وهو ما ينوي الإقامة فيه دون نصف شهر.
*ملتقى الابحر:(243/1،ط: دارالكتب العلمية)*
ويبطل الوطن الأصلي بمثله لا بالسفر ووطن الإقامة بمثله والسفرالأصلي.
*العناية شرح الهداية:(44/2،ط: دارالفكر)*
أن الوطن الأصلي يبطل بالوطن الأصلي دون وطن الإقامة، وإنشاء السفر وهو أن يخرج قاصدا مكانا يصل إليه في مدة السفر لأن الشيء إنما يبطل بما فوقه أو ما يساويه وليس فوقه شيء فيبطل بما يساويه، ألا ترى أن رسول الله ﷺ بعد الهجرة عد نفسه بمكة من المسافرين وقال «أتموا صلاتكم فإنا قوم سفر» وأما وطن الإقامة فله ما يساويه وما هو فوقه فيبطل بكل منهما وبإنشاء السفر أيضا لأنه ضده.