سوال : کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ! میرے بھائی کی دوکان ہے کرایہ دیتا ہے، وہ جل گی دوکان میں جو سامان تھاوہ بھی جل گیا اور دوکان کے دروازے بھی جل گئے اور دیوار بھی کالی ہوگی پھر دوکان کے مالک نے ایک لاکھ دس ہزار روپے خرچ کرکے دوبارہ بنایا ۔ اب دوکان کا مالک کہتا ہے کہ شریعت کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں کہ سامان میرے ذمہ ہے تو میں دوں گا ورنہ نہیں ۔
برائے مہربانی جواب دے کر ممنون فرمائیں ۔
واضح رہے کہ سوال میں ذکرکردہ صورت میں چونکہ دوکان کرایہ دار کی زیادتی یا لاپرواہی کے بغیر اچانک آگ لگنے کی وجہ سے جل گی ہے، لہذااس دوکان کی مرمت اور اس پر آنے والا خرچ دوکان کے مالک ذمے ہے،کیونکہ دوکان کا اصل مالک وہی ہے،البتہ کرایہ دار (یعنی آپ کے بھائی) کا جو ذاتی سامان دوکان کے اندر موجود تھا اور آگ لگنے کی وجہ سے جل گیا، اُس کا نقصان مالک کے ذمہ نہیں ہے۔
الدرالمختار : (6/ 79،ط:دارالفكر)
(وعمارة الدار) المستأجرة (وتطيينها وإصلاح الميزاب وما كان من البناء على رب الدار) وكذا كل ما يخل بالسكنى.
الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي: (5/ ،ط:دارالفكر)
قرر الحنفية أن المؤجر صاحب الدار هو الملزم وحده دون المستأجر بتطيين الجدران وإصلاح ميازيب الدار وما ينهدم ويسقط من بنائها، حتى تكون صالحة للانتفاع؛ لأن الدار ملك للمؤجر، وإصلاح الملك يكون على المالك.
أيضاً: (4/ 3194)
يرى المالكية والحنابلة أن الجوائح التي تصيب الثمار من ضمان البائع، وأن للمشتري أن يرجع بما أحدثتهمن التلف. ويرى الحنفية والشافعية أن هلاك الثمار من ضمان المشتري، ولا رجوع له بشيء على البائع.