سوال کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کسی بھی مسلمان بھائی کے لیے بندروں کا کھیل یاکسی بھی طرح کاکھیل مثلا جادو وغیرہ کا کھیل ، نظرکو بند کردینا اور انسان کو سانپ بنادینا ، یا حرام جانوروں کا بیع وشراء کرنا یا کوئی بھی حرام کھیل دکھاکر اپنا ذریعہ معاش بنانااور اس پیسے کو حلال جگہ پہ خرچ کرنا مثلا اپنے بچوں کی پرورش کرنایا مسجد ومدرسہ پر خرچ کرنا کیساہے ؟
واضح رہے کہ مساجد ومدارس کی تعمیر میں حرام مال کا استعمال کرنا شرعاًدرست نہیں ہے ، البتہ اگر کسی کے پاس ناجائز طریقے سے حاصل شدہ رقم موجود ہو، تو اس کا استعمال رفاہِ عامہ کے کاموں میں کیا جا سکتا ہے، جیسے سڑک، پل، نہر، یا دیگر عوامی مفاد کے منصوبے۔اسی طرح، اگر بغیر ثواب کی نیت کے فقراء پر یہ رقم خرچ کی جائے تو اس کی اجازت ہے۔ اور اگر کوئی شخص خود مستحق (فقیر) ہو، تو وہ اس رقم کو اپنے ذاتی اخراجات یا اپنے اہل و عیال کی ضروریات پر بھی خرچ کر سکتا ہے۔
حاشية ابن عابدين ،ط6/ 386):،ط:دارالفکر)
«وفي الخانية: امرأة زوجها في أرض الجور إذا أكلت من طعامه، ولم يكن عينه غصبا أو اشترى طعاما أو كسوة من مال أصله ليس بطيب فهي في سعة من ذلك والإثم على الزوج اهـ حموي.
أيضا: (5/ 99)
«والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه،»
أيضاً (1/ 658):
(قوله لو بماله الحلال) قال تاج الشريعة: أما لو أنفق في ذلك مالا خبيثا ومالا سببه الخبيث والطيب فيكره لأن الله تعالى لا يقبل إلا الطيب، فيكره تلويث بيته بما لا يقبله.
مال حرام اور اس کے شرعی مصارف کے احکام میں ہے :
فاذا اردنا ان نرجح بین ہذہ الاقوال والتخریجات ، فان القول بعدم جواز ان تبنی المساجد من الاموال الحرام ھوالاولیٰ بالاخذ وھو الاقرب الیٰ قواعد الشریعۃ ومبادئھا للاسباب التالیۃ :
اولا : ان المساجد بیوت اللہ اضافھا جل وعلا الیٰ نفسہ اضافۃ تشریف وتعظیم فی قولہ تعالیٰ " انما یعمرمساجد اللہ من آمن باللہ والیوم الآخر " (التوبۃ :۱۸) فماکان للہ لایکون الا طیبا لان اللہ تعالیٰ طیب لا یقبل الا طیبا والمال الحرام خبیث لیس بطیب فکیف یصح ان یکون غیر الطیب فی بیت من بیوت اللہ تعالیٰ ۔
الراشدی :مفتی کمال الدین ص ۱۹۳ ط :نورمحمد کتب خانہ ۔