سوال : کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ! ایک شخص نے غیر سودی اکاونٹ کھولا ہے بینک والا ایک دو سال کے بعد اس کو اپنی طرف سے ایک دو ہزار روپے دیتے ہیں کیا ان کو لینا جائز ہے ؟
واضح رہے کہ صورت مسئولہ میں اگر بینک والے یہ رقم بطور انعام دیتے ہیں توان کا لینااور استعمال کرنا جائز ہےاور اس عقد کو عقد تبرع کہتے ہیں، یعنی کسی کے ساتھ احسان کرنا ۔
صحيح البخاري:(5/ 3):حديث رقم ٣٦٥٢ ط : السلطانية )
عن البراء قال: اشترى أبو بكر رضي الله عنه من عازب رحلا بثلاثة عشر درهما، فقال أبو بكر لعازب: مر البراء فليحمل إلي رحلي، فقال عازب: لا، حتى تحدثنا: كيف صنعت أنت ورسول الله صلى الله عليه وسلم حين خرجتما من مكة والمشركون يطلبونكم؟ قال: ارتحلنا من مكة، فأحيينا، أو: سرينا ليلتنا ويومنا حتى أظهرنا وقام قائم الظهيرة، فرميت ببصري هل أرى من ظل فآوي إليه، فإذا صخرة، أتيتها فنظرت بقية ظل لها فسويته، ثم فرشت للنبي صلى الله عليه وسلم فيه، ثم قلت له: اضطجع يا نبي الله، فاضطجع النبي صلى الله عليه وسلم، ثم انطلقت أنظر ما حولي هل أرى من الطلب أحدا، فإذا أنا براعي غنم يسوق غنمه إلى الصخرة، يريد منها الذي أردنا، فسألته فقلت له: لمن أنت يا غلام؟ قال: لرجل من قريش، سماه فعرفته، فقلت: هل في غنمك من لبن؟ قال: نعم، قلت: فهل أنت حالب لبنا؟ قال: نعم، فأمرته فاعتقل شاة من غنمه، ثم أمرته أن ينفض ضرعها من الغبار، ثم أمرته أن ينفض كفيه، فقال: هكذا، ضرب إحدى كفيه بالأخرى، فحلب لي كثبة من لبن، وقد جعلت لرسول الله صلى الله عليه وسلم إداوة على فمها خرقة، فصببت على اللبن حتى برد أسفله، فانطلقت به إلى النبي صلى الله عليه وسلم فوافقته
جديد معاملات كے شرعی احکام میں ہے :
بینک والے کمپنیوں والے کارڈ ہولڈرز کو جو انعامات دیتے ہیں ان کالینااور
استعمال کرناجائز ہے کیوں کہ بینک والوں اور کمپنیوں والوں کی حیثیت مال کا قرض دہندہ کی ہوتی ہے اور کارڈ ہولڈرز ان اداروں کے لیے مقروض کا درجہ رکھتا ہے اور قرض دہندہ اگر اپنے مقروض کو انعام دے توا س کا لینا مقروض کے لیے جائز ہے ۔
مفتی احسان اللہ شائق صاحب : ج۱ ص ۱۴۶ دارالاشاعت اردو بازار لاہور ۔