سوال : کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ! ہمارے ہاں بھیڑ بکریوں والوں کا یہ رواج ہے کہ جب بھیڑ بکریوں کا اون نکل آتا ہے تو پورے ریوڑ میں جتنی بھیڑیں ہوتی ہیں، ان سب کے اون کو فروخت کرتے ہیں پھر خریدنے والا اپنے مرضی سے اون کاٹ کاٹ کر لے جاتا ہے۔ کیا ایسا کرنا جائز ہے؟
بھیڑ بکریوں کے جسم پر موجود اون کو کاٹنے سے پہلے بیچنا جائز نہیں ہے، کیونکہ شریعت کے مطابق کسی چیز کو بیچنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ واضح، معلوم اور قابلِ قیمت (متقوم) ہو،جبکہ اون کاٹنے سے پہلے نہ تو وہ مکمل ظاہر ہوتی ہے اور نہ ہی اس کی مقدار معلوم ہوتی ہے، کیونکہ وہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی رہتی ہے۔ اس وجہ سے بیچی جانے والی چیز (مبیع) اور نہ بیچی جانے والی چیز (غیر مبیع) آپس میں گڈ مڈ ہو جاتی ہیں، جس سے شرعی قباحت پیدا ہوتی ہے، لہٰذا جب تک اون کو کاٹ نہ لیا جائے، اس کی خرید و فروخت درست نہیں۔
المعجم الكبير للطبراني:(11/ 338،رقم الحدیث:11935،ط: مكتبة ابن تيمية)
عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال: «نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن تباع ثمرة حتى تطعم، ولا صوف على ظهر، ولا لبن في ضرع.
الشامية: (5/ 63،ط:دارالفکر)
(قوله وصوف على ظهر غنم) للنهي عنه؛ ولأنه قبل الجز ليس بمال متقوم في نفسه؛ لأنه بمنزلة وصف الحيوان لقيامه به كسائر أطرافه و؛ لأنه يزيد من أسفل فيختلط المبيع بغيره كما قلنا في اللبن زيلعي.