مدرس کے لیے ماہ شوال کی تنخواہ کا حکم

فتوی نمبر :
49
| تاریخ :
0000-00-00
/ /

مدرس کے لیے ماہ شوال کی تنخواہ کا حکم

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ! ایک مدرس گزشتہ تین سال سے ایک مدرسے میں پڑھارہا ہے اور چھٹیوں میں بھی مدرسے جاتا رہتا ہے اور وہاں کام کاج کرتا رہتا ہے اور اب شوال میں بھی چند دن مدرسے حاضر ہوتا رہا ہے اب سوال یہ ہے کہ اگر مدرسے کا انتظامیہ ایسے استاد کو شوال میں جواب دیں تو اس مدرس کو شوال کی تنخواہ ملے گی یا نہیں ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ



واضح رہے کہ مدارس میں تعلیمی سال رمضان المبارک تک ختم ہو کر،شوال سے نیا سال شروع ہو جاتا ہے۔لہذا اگر استاذ شوال میں بھی مدرسہ کی ذمہ داریوں میں مصروف تھے تو وہ تنخواہ کے مستحق ہوں گے،لیکن اگر مدرسے کی انتظامیہ نے ان سے آئندہ سال کے لیے معذرت کر لی یا وہ خود شوال میں مدرسے نہیں آئے تو وہ تنخواہ کے مستحق نہیں ۔
تاہم اس کا صحیح فیصلہ جانبین (مدرس و انتظامیہ) کا موقف جاننے یا باہمی معاہدہ دیکھنے کے بعد کیا جا سکتا ہے ۔

حوالہ جات



الشامیة: (372/4،ط:دار الفکر)
‌وهل ‌يأخذ ‌أيام ‌البطالة كعيد ورمضان؟ لم أره، وينبغي إلحاقه ببطالة القاضي.واختلفوا فيها، والاصح أنه يأخذ، لانها للاستراحة أشباه من قاعدة العادة محكمة
(قوله: وينبغي إلحاقه ببطالة القاضي إلخ) قال في الأشباه وقد اختلفوا في أخذ القاضي ما رتب له في بيت المال في يوم بطالته، فقال في المحيط: إنه يأخذ لأنه يستريح لليوم الثاني وقيل لا. اهـ ……أما لو قال يعطى المدرس كل يوم كذا فينبغي أن يعطى ليوم البطالة المتعارفة بقرينة ما ذكره في مقابله من البناء على العرف، فحيث كانت البطالة معروفة في يوم الثلاثاء والجمعة وفي رمضان والعيدين يحل الأخذ، وكذا لو بطل في يوم غير معتاد لتحرير درس إلا إذا نص الواقف على تقييد الدفع باليوم الذي يدرس فيه كما قلنا..

الأشباه والنظائر لابن نجيم:(ص: 81)
ومنها البطالة في المدارس، كأيام الأعياد ويوم عاشوراء، وشهر رمضان في درس الفقه لم أرها صريحة في كلامهم.
والمسألة على وجهين: فإن كانت مشروطة لم يسقط من المعلوم شيء، وإلا فينبغي أن يلحق ببطالة القاضي، وقد اختلفوا في أخذ القاضي ما رتب له من بيت المال في يوم بطالته، فقال في المحيط: إنه يأخذ في يوم البطالة؛ لأنه يستريح لليوم الثاني. وقيل: لا يأخذ (انتهى).

مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر:(2/ 391،ط:دارالتراث)
"والأجير الخاص هو الذي يستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة، وإن لم يعمل.

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دار الافتاء جامعہ دارالعلوم حنفیہ،کراچی

واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ دارالعلوم حنفیہ (نعمان بن ثابت)

فتوی نمبر 49کی تصدیق کریں
50
Related Fatawa متعلقه فتاوی
  • ناپاک پانی کو گھر کی تعمیر میں استعمال کرنا

    یونیکوڈ   0
  • عصر کے بعد ناخن کاٹنے کا حکم

    یونیکوڈ   0
  • بینک کے لیے سوفٹ ویئر بنانا

    یونیکوڈ   0
  • تصویر والے کمرے میں نماز کا حکم

    یونیکوڈ   21
  • چھپکلی کے ٹینکی میں گر کر مرنے سے پانی کا حکم

    یونیکوڈ   0
  • زندگی میں اپنی قبر کے لیے جگہ خرید کر مختص کرنا

    یونیکوڈ   0
  • قعدہ اخیرہ میں ایک سے زائد دعائیں پڑھنا

    یونیکوڈ   0
  • حاملہ عورت کا میت کے گھر جانا

    یونیکوڈ   0
  • *کیا ماہِ محرم کی فضیلت حضرت حسین کی شہادت کی وجہ سے ہے؟*

    یونیکوڈ   0
  • مسافر مقتدی کا مسافر امام کے پیچھے چار رکعت نماز کی نیت کرنا

    یونیکوڈ   0
  • قاعدۂ اولیٰ میں درود شریف پڑھنے کا حکم

    یونیکوڈ   0
  • لنڈے کے کپڑوں سے ملنے والی کرنسی اور دیگر قیمتی چیزیں لقطہ کے حکم میں ہیں

    یونیکوڈ   0
  • نماز تراویح کی نیت

    یونیکوڈ   0
  • مسجد میں بآواز بلند سلام کرنا

    یونیکوڈ   0
  • ٹیسٹ ٹیوب بے بی (I.V.F) کا حکم

    یونیکوڈ   0
  • سنت مؤکدہ چھوڑ کر نوافل پڑھنے کا حکم

    یونیکوڈ   0
  • بریلوی حضرات کے ہاں ملازمت کرنا اور ان کے پیچھے نماز پڑھنا

    یونیکوڈ   0
  • ایکسچینج کمپنی میں خود سرمایہ کاری کرنا اور دوسروں سے کمیشن پر سرمایہ کاری کرانے کا حکم

    یونیکوڈ   0
  • بینک میں سونا جمع کروا کر قرض لینے کی صورت میں بینک کی طرف سے ملنے والے انعامات کا حکم

    یونیکوڈ   0
  • نمازی کے ساتھ بات کرنے کا حکم

    یونیکوڈ   0
  • ڈبے پر لکھی قیمت کو نظر انداز کر کے اپنی مرضی کی قیمت پر بیچنا

    یونیکوڈ   0
  • سالگرہ (برتھ ڈے)منانے کا حکم

    یونیکوڈ   0
  • قرض پر لی گئی اضافی رقم کا حکم اور اس کا مصرف

    یونیکوڈ   0
  • نماز میں قعدہ اولیٰ چھوڑنے پر نماز کا حکم

    یونیکوڈ   0
...
Related Topics متعلقه موضوعات
  • 103