ایک شخص کے 2,70,000 روپے ایک پارٹی کے پاس کاروبار میں پچھلے ایک سال سے رکے ہوئے ہیں۔ اس میں سے 40,000 روپے ایک کا قرض ہے اور 1,15,000 روپے دوسرے شخص کا قرض ہے۔ اس طرح کل کٹوتی کے بعد اس کے پاس صرف 1,15,000 روپے بچتا ہے، مگر وہ بھی فی الحال اس کے قبضے میں نہیں ہے، بلکہ پارٹی کے پاس رکا ہوا ہے اور ملنے کا وقت بھی غیر یقینی ہے، کیا یہ شخص اس حالت میں صاحبِ نصاب نہ ہونے کی وجہ سے کسی صاحبِ نصاب کی دی گئی زکوٰۃ استعمال کر سکتا ہے؟
واضح رہے کہ زکوٰۃ اسی شخص کو دی جاسکتی ہے جس کے پاس اپنی ضروریاتِ زندگی کے علاوہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر مال یا سامان موجود نہ ہو، اگر کسی کے پاس ضرورت سے زائد مکان، پلاٹ یا اتنی مالیت کی رقم ہو تو وہ شرعاً زکوٰۃ کا مستحق نہیں رہتا۔
لہٰذا پوچھی گئی صورت میں چونکہ اس آدمی کے پاس نصاب سے کم مال موجود ہے، اس لیے اس شخص کے لیے زکوۃ لینا جائز ہے ۔
*الشامية:(340/2،ط: دارالفكر)*
لا يجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصابا إلا إلى طالب العلم والغازي ومنقطع الحج.
*الهندية:(189/1،ط:دارالفكر )*
لا يجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصابا أي مال كان دنانير أو دراهم أو سوائم أو عروضا للتجارة أو لغير التجارة فاضلا عن حاجته في جميع السنة هكذا في الزاهدي والشرط أن يكون فاضلا عن حاجته الأصلية، وهي مسكنه، وأثاث مسكنه وثيابه وخادمه، ومركبه وسلاحه، ولا يشترط النماء إذ هو شرط وجوب الزكاة لا الحرمان كذا في الكافي. ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من:النصاب، وإن كان صحيحا مكتسبا كذا في الزاهدي. ولا يدفع إلى مملوك غني غير مكاتبه كذا في معراج الدراية.
*البحر الرائق:(260/2،ط:دارالكتاب الإسلامي)*
لايجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصابا إلا إلى طالب العلم والغازي والمنقطع لقوله عليه السلام ويجوز دفع الزكاة لطالب العلم، وإن كان له نفقة أربعين سنة اهـ.