سگے بھانجے بالغ یا نا بالغ کو زکوٰۃ کی رقم دے سکتے ہیں؟ ان کے علاج یہ دیگر اخراجات کے لیے؟ اگر چہ ان کے والدین خود صاحب نصاب ہوں؟
واضح رہے کہ اگر بھانجے بالغ ہیں یا نا بالغ ہیں،لیکن قبضہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں اور ان کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی کے بقدر مال موجود نہ ہو تو انہیں زکوٰۃ دینا جائز ہے، بلکہ انہیں دینے میں دوہرا اجر ہے، ایک زکوۃ کا اور دوسرا صلہ رحمی کا، لیکن اگر وہ ناسمجھ ہیں اور قبضہ کرنے کی سمجھ نہیں رکھتے تو انہیں زکوٰۃ دینا جائز نہیں۔
*الهندية:(190/1،ط: دارالفكر)*
والأفضل في الزكاة والفطر والنذر الصرف أولا إلى الإخوة والأخوات ثم إلى أولادهم ثم إلى الأعمام والعمات ثم إلى أولادهم ثم إلى الأخوال والخالات ثم إلى أولادهم ثم إلى ذوي الأرحام ثم إلى الجيران ثم إلى أهل حرفته ثم إلى أهل مصره أو قريته كذا في السراج الوهاج.
*الشامية:(346/2،ط: دارالفكر)*
وفي الظهيرية: ويبدأ في الصدقات بالأقارب، ثم الموالي ثم الجيران، ولو دفع زكاته إلى من نفقته واجبة عليه من الأقارب جاز إذا لم يحسبها من النفقة بحر وقدمناه موضحا أول الزكاة.
*أيضا:(356/2،ط: دارالفكر)*
(قوله: إلى صبيان أقاربه) أي العقلاء وإلا فلا يصح إلا بالدفع إلى ولي الصغير.